ہر کوئی اپنے زمانے کو برا اور گزرے زمانے کی رام لیلا جبتا ہے۔سر دھنتا رہتا ہے، مگر اس سمےاچھت ریکھایئں کیا پرہوت کرتی رھیں اس سے ناواقف رہتا یے۔ صرف اس پر کیا موقف، ھم نے جو سوچ کی خوردبین خود پر ڈالی تو فقط زمین پر ماتھے کو رگڑتے پایا - جن باتوں کی وعدہ الست میں لبیک کہی وہی سوچ 1400 سال میں بھلا بیٹھے، جب ابتدائے آفرینش سے سب چیزیں مقررتھیں، تو پھر رنگولی کی پچکاریاں کیوں مار رہا ہے"وہ"، ،یہی سوچ کے ساتھ ادھر حاضر ہوں آخر اس صدی کی اہمیت اور ھمارا مقصد کیاہے؟
زار کے صفحے
▼
منگل، 18 مارچ، 2014
اتوار، 16 مارچ، 2014
انا سے مبرا سفر انمول- سلوک کا
ہم گفتہ ناشید چرم شودم۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔کیونکہ ہم میں ذات سے ذیادہ صفات سے محبت ہوتی ہو ہم اسی پلڑے میں اپنی بوسیدہ سوچوں کی گٹھری کو بچھا کر صنم تراشتے ہیں ،تو ھمارے صنم کدہ کے بتان بھی موسموں جیسے اسلوب اپناتے ہیں، کسی کی معصومیت، کسی کی بےباکی ہمیں دھچکا دے تو ھم نفسانی جنگ کے نامدار بن جاتے-
اور کوشش کرتے کہ ھماری ذات سے متعلق جو کجیاں ہیں انکو نیست کرتے ہوئے اگلے کو نا صرف خود کا گرویدہ بنائیں بلکہ اسے اس طرح ہیچ کریں کہ ھمارے بت کی پرشتش شروع ہو جائے، جے جے کار ہو! تلک و سندور سے ہماری رچنا پوتر کی جائے-
مگر ان سب باتوں کے باوجود ہمارے اندر جل کی استیاں نہیں بجھ پاتیں کیونکہ ھم میں وہ تمیز ہی نہیں رہتی جو ھمکو ایک انسان سے آگے سوچنے کا اذن عطا کرے- کراھیت کے سنپولے کو بناوٹی چاہ کے لبادے بے شک اڑھا دیں مگر انداز کی سادگی کدھر سے آئے گی؟
اسکے لیئے سب سے پہل یہ کرنا ہو گا کہ من کے گھروندے کے دوار بن کواڑ کے رکھنے ہوں گے اور تسنیم کی طرح ذات کی پرتوں کو بے باک کر کے عوام و خاص کے لیئے وا کرنا ہو گا- ہر ایک سے اسکے مراتب و سوچ کے منصب پر جا کر خود کو ہیچ ثابت کرنا ہو گا، تبھی ہمارے اندر کی دوشالہ اتر کر یک رنگی سے شناسا ہو گی اور یہ یک رنگی گر توحید کی پٹری کی شناسا نکلی تو ممکن ہے کہ ذات کی اچھا دھاریوں میں سے سانپ کا زہر نکل کر فقط روح کا طریاق ہی رہ جائے-
مگر ان سب باتوں کا گیان تبھی مل سکتا ہے جب ہمارے ہاتھوں میں "لا" کی تلوار ہو اور قلب ہر خصوصی و عمومی سوچوں کی یلغار سے بےباک ہو- اسی طور تو ذات میں سیکھ کی جلا عطا ہوتی ہے اور بندہ عاجز ہو کر surrenderness کا عطر لگاتا ہے، جسکی مہک بندہ کو بندہ نواز بنا دیتا ہے، خود سے پرے اگلے سیارچے کا مسافر کر دیتا ہے، جہاں کی آبادکاریاں -اور نئے موسموں کا سراغ اسکی فطرط کا حصہ بن جاتی ہیں- "جاری ھے
ہفتہ، 15 مارچ، 2014
سب یہیں کے چھل ہیں
زاہد آنکھ بند کر کے من کی کٹیا میں بھنبھیری الاپتا ہے، عابد تقوے کے پٹے آنکھوں پر باندھ کر رشد کے صحیفے سناتا ہے، مگر پیر کامل صرف اک "ھو" کے صدقے سارے راستے عشاق کے طے کروا دیتا ہے-
یاد رکھنے کی بات ہے کہ، بس پیر کامل کے در سے اصحاب کھف کے کتے جیسی خو ہو بشر میں تو بات بنے ورنہ خالی نلی میں فقط پھونک بھی جا سکتی ،سیپ کہ مانند اس میں سے موتی نہیں نکلتے آسمان عشاق کے-
دعا ہونی چاہیئے کہ پیر کامل کی نسبط عطا ہو، باقی سب مایا ہے، فانی ہے- سب یہیں کے چھل ہیں، سب یہیں رہ جانے ہیں
میں بس راہ دا
میں راہ دا کوڑا ووڑا ، میرا مرشد سوہنا میری ذات وچ وسدا
ہور میں مانگا کی؟؟؟؟؟
میں وچ جدوں اس دا ویڑا،تد
میں کیوں روواں بوہے باڑ کے دس،
اے ہور گلاں ون تیرے وس دی نئیں، ہن
میں کیڑے پاسے ویکھاں دسیو!
جدوں نظراں وچ نہ آوے او،
بس ہک گل میرے مرشد دی سوہنڑی وے،
جدوں آوے آکھے وچ مسیتی کہ، مینڈھا
زار کملیا کتھے رہ گیا پاسے،
میں بس راہ دا کوڑا ووڑا،میرا مرشد سوہنا میری ذات وچ وسدا
ہور میں مانگا کی؟؟؟؟؟
جمعہ، 14 مارچ، 2014
محبوبِ الہیٰ
مرشد سے محبت
کہتے ہیں کہ ایک دن ایک سید زادہ
حضرت نظام الدین اولیاء کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی "یا حضرت میں ایک غریب سید زادہ ہوں اور سر پر جوان بیٹیوں کا بوجھ ہے۔۔ سادات گھرانے کی نسبت ہونے کی وجہ سے زکوٰۃ بھی نہیں لے سکتا۔ آپ میرے دینی بھائی ہیں اور سید بھی ہیں آپ میری مدد کریں کچھ۔"
آپ نے اس کو عزت و تکریم کے ساتھ بٹھایا اور خادم سے بلا کر کہا کہ آج کوئی نذر و نیاز آئی خانقاہ میں؟ تو خادم نے عرض کی "سیدی ابھی تک تو کوئی نہیں آئی لیکن جیسے ہی آئی میں آپ کو اطلاع کر دوں گا-"
آپ نے سید زادے کو تسلی دی اور کہا اللہ پہ بھروسہ کرے وہ دست غیب سے کوئی نہ کوئی انتظام فرما دے گامگر تین دن گزر گئے کوئی نیاز نہ آئی سید زادہ بھی مایوس ہوگیا کہ ایویں باتیں مشہور ہیں ان کے بارے میں یہاں تو کوئی مدد ہی نہیں ہو سکی میری-
ایک دن اس نے اجازت طلب کی واپسی کیحضرت محبوب الہیٰ کو بہت دکھ ہوا
کہ مہمان خالی ہاتھ گھر سے جا رہا ہے آپ نے اس کو چند پل کے لیئے روکا
اور اندر سے اپنے نعلین لا کر دے دیئے اور کہا بھائی اس فقیر کے پاس تمھیں دینے کے لیئے اپنے ان جوتوں کے علاوہ کچھ نہیں وہ سید زادہ جوتے لیکر چل پڑا اور سوچنے لگا کہ ان پرانے بوسیدہ جوتوں کا کیا کروں گا حضرت نے اچھا مذاق کیا ہے میرے ساتھ-
دوسری طرف کی سنیئے. . .سلطان محمد تغلق کسی جنگی مہم سے واپس آرہا تھا اور حضرت امیر خسرو جو حضرت نظام الدین اولیا ء کے خلیفہ بھی تھے
سلطان کے ساتھ تھے اور چونکہ آپ ایک قابل قدر شاعر تھے اس لیئے دربار سلطانی میں اہمیت کے حامل تھے_ آپ نے سلطان کی شان میں قصیدہ کہا
تو سلطان نے خوش ہو کر آپ کو سات لاکھ چیتل (سکہ رائج الوقت )سے نوازا
اپنے واپسئ کے سفر پر جب ابھی لشکر سلطانی دہلی سے باہر ہی تھا
اور رات کو پڑاؤ کیا گیا تو اچانک امیر خسرو چلا اٹھے مجھے اپنے مرشد کی خوشبو آتی ہے- مصاحب بولے امیر حضرت محبوب الہیٰ تو کیلوکھڑی میں ہیں جو دہلی سے کافی دور ہے تو آپ کو انکی خوشبو کیسے آ گئی مگر امیر خسرو بے قرار ہوکر باہر نکل پڑے اور خوشبو کا تعاقب کرتے کرتے ایک سرائے تک جا پہنچے- جہاں ایک کمرے میں ایک شخص اپنے سر کے نیچے کچھ رکھ کر سویا ہوا تھا اور خوشبو وہاں سے آ رہی تھی- آپ نے اس کو جگایا اور پوچھا تو حضرت نظام الدین کی خانقاہ سے آ رہے ہو کیا؟ تو وہ آنکھیں ملتا ہوا بولا 'ہاں'
آپ نے اشتیاق سے پوچھا کیسے ہیں میرے مرشد؟ وہ شخص بولا وہ تو ٹھیک ہیں اور میں ان کے پاس مدد کے لیے گیا تھا مگر اور کچھ تو دیا نہیں ہاں اپنے پرانے بوسیدہ جوتے ضرور دیئے ہیں یہ سنتے ہیں امیر خسرو کی حالت غیر ہو گئی اور کہنے لگے کہاں ہیں میرے مرشد کے نعلین ؟
تو اس نے ایک کپڑا کھول کر دکھا دیئے آپ نے ان کو پکڑا چوما اور اپنی آنکھوں سے لگایا اور کہنے لگے کیا تو ان کو بیچے گا؟ اس نے کہا امیر کیوں مذاق اڑاتے ہو امیر خسرو بولے مذاق نہیں میرے پاس اس وقت سات لاکھ چیتل ہیں وہ لے لو مگر میرے مرشد کے نعلین مجھے دے دو اور اگر چاہو تو دہلی چلو اتنی ہی رقم اور دے دوں گا تمھیں- سات لاکھ چیتل کا سن کر وہ چکرا گیا اور بولا نہیں بس میرا تو چند ہزار سے گزارا ہو جائے گا مگر امیر خسرو نے زبردستی اس کو سات لاکھ چیتل دیئے اور ساتھ میں سپاہی اور تحریر دے دی تا کہ کوئی اس پر شک نہ کرے-
اور پھر امیر خسرو اس حالت میں خانقاہ مرشد میں داخل ہوئے کہ جوتے اپنی دستار میں لپیٹ رکھے تھے اور سر پر رکھے بڑھے چلے آ رہے تھے اور زارو قطار رو رہے تھے- حضرت نظام الدین اولیاء نے مسکراتے ہوئے پوچھا
"خسرو ہمارے لیئے کیا لائے ہو؟"
امیر نے جواب دیا سیدی آپ کے نعلین لایا ہوں-
"کتنے میں خریدے؟"
حضرت نظام الدین اولیاء نے استفسار کیا
"سات لاکھ چیتل امیر نے جوابا" عرض کی
"بہت ارزاں لائے ہو۔" محبوب الہیٰ مسکراتے ہوئے بولے-
جی سیدی سات لاکھ چیتل تو بہت کم ہیں اگر وہ سید زادہ میری جان بھی مانگتا تو جان دے کر نعلینِ مرشد حاصل کر لیتا-
یہ تھی ان کی اپنے مرشد سے محبت
اور حضرت نظام الدین اولیاء کا مقام معرفت
جس کی وجہ سے ان کو محبوبِ الہیٰ کہا جاتا ہے.
کہتے ہیں کہ ایک دن ایک سید زادہ
حضرت نظام الدین اولیاء کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی "یا حضرت میں ایک غریب سید زادہ ہوں اور سر پر جوان بیٹیوں کا بوجھ ہے۔۔ سادات گھرانے کی نسبت ہونے کی وجہ سے زکوٰۃ بھی نہیں لے سکتا۔ آپ میرے دینی بھائی ہیں اور سید بھی ہیں آپ میری مدد کریں کچھ۔"
آپ نے اس کو عزت و تکریم کے ساتھ بٹھایا اور خادم سے بلا کر کہا کہ آج کوئی نذر و نیاز آئی خانقاہ میں؟ تو خادم نے عرض کی "سیدی ابھی تک تو کوئی نہیں آئی لیکن جیسے ہی آئی میں آپ کو اطلاع کر دوں گا-"
آپ نے سید زادے کو تسلی دی اور کہا اللہ پہ بھروسہ کرے وہ دست غیب سے کوئی نہ کوئی انتظام فرما دے گامگر تین دن گزر گئے کوئی نیاز نہ آئی سید زادہ بھی مایوس ہوگیا کہ ایویں باتیں مشہور ہیں ان کے بارے میں یہاں تو کوئی مدد ہی نہیں ہو سکی میری-
ایک دن اس نے اجازت طلب کی واپسی کیحضرت محبوب الہیٰ کو بہت دکھ ہوا
کہ مہمان خالی ہاتھ گھر سے جا رہا ہے آپ نے اس کو چند پل کے لیئے روکا
اور اندر سے اپنے نعلین لا کر دے دیئے اور کہا بھائی اس فقیر کے پاس تمھیں دینے کے لیئے اپنے ان جوتوں کے علاوہ کچھ نہیں وہ سید زادہ جوتے لیکر چل پڑا اور سوچنے لگا کہ ان پرانے بوسیدہ جوتوں کا کیا کروں گا حضرت نے اچھا مذاق کیا ہے میرے ساتھ-
دوسری طرف کی سنیئے. . .سلطان محمد تغلق کسی جنگی مہم سے واپس آرہا تھا اور حضرت امیر خسرو جو حضرت نظام الدین اولیا ء کے خلیفہ بھی تھے
سلطان کے ساتھ تھے اور چونکہ آپ ایک قابل قدر شاعر تھے اس لیئے دربار سلطانی میں اہمیت کے حامل تھے_ آپ نے سلطان کی شان میں قصیدہ کہا
تو سلطان نے خوش ہو کر آپ کو سات لاکھ چیتل (سکہ رائج الوقت )سے نوازا
اپنے واپسئ کے سفر پر جب ابھی لشکر سلطانی دہلی سے باہر ہی تھا
اور رات کو پڑاؤ کیا گیا تو اچانک امیر خسرو چلا اٹھے مجھے اپنے مرشد کی خوشبو آتی ہے- مصاحب بولے امیر حضرت محبوب الہیٰ تو کیلوکھڑی میں ہیں جو دہلی سے کافی دور ہے تو آپ کو انکی خوشبو کیسے آ گئی مگر امیر خسرو بے قرار ہوکر باہر نکل پڑے اور خوشبو کا تعاقب کرتے کرتے ایک سرائے تک جا پہنچے- جہاں ایک کمرے میں ایک شخص اپنے سر کے نیچے کچھ رکھ کر سویا ہوا تھا اور خوشبو وہاں سے آ رہی تھی- آپ نے اس کو جگایا اور پوچھا تو حضرت نظام الدین کی خانقاہ سے آ رہے ہو کیا؟ تو وہ آنکھیں ملتا ہوا بولا 'ہاں'
آپ نے اشتیاق سے پوچھا کیسے ہیں میرے مرشد؟ وہ شخص بولا وہ تو ٹھیک ہیں اور میں ان کے پاس مدد کے لیے گیا تھا مگر اور کچھ تو دیا نہیں ہاں اپنے پرانے بوسیدہ جوتے ضرور دیئے ہیں یہ سنتے ہیں امیر خسرو کی حالت غیر ہو گئی اور کہنے لگے کہاں ہیں میرے مرشد کے نعلین ؟
تو اس نے ایک کپڑا کھول کر دکھا دیئے آپ نے ان کو پکڑا چوما اور اپنی آنکھوں سے لگایا اور کہنے لگے کیا تو ان کو بیچے گا؟ اس نے کہا امیر کیوں مذاق اڑاتے ہو امیر خسرو بولے مذاق نہیں میرے پاس اس وقت سات لاکھ چیتل ہیں وہ لے لو مگر میرے مرشد کے نعلین مجھے دے دو اور اگر چاہو تو دہلی چلو اتنی ہی رقم اور دے دوں گا تمھیں- سات لاکھ چیتل کا سن کر وہ چکرا گیا اور بولا نہیں بس میرا تو چند ہزار سے گزارا ہو جائے گا مگر امیر خسرو نے زبردستی اس کو سات لاکھ چیتل دیئے اور ساتھ میں سپاہی اور تحریر دے دی تا کہ کوئی اس پر شک نہ کرے-
اور پھر امیر خسرو اس حالت میں خانقاہ مرشد میں داخل ہوئے کہ جوتے اپنی دستار میں لپیٹ رکھے تھے اور سر پر رکھے بڑھے چلے آ رہے تھے اور زارو قطار رو رہے تھے- حضرت نظام الدین اولیاء نے مسکراتے ہوئے پوچھا
"خسرو ہمارے لیئے کیا لائے ہو؟"
امیر نے جواب دیا سیدی آپ کے نعلین لایا ہوں-
"کتنے میں خریدے؟"
حضرت نظام الدین اولیاء نے استفسار کیا
"سات لاکھ چیتل امیر نے جوابا" عرض کی
"بہت ارزاں لائے ہو۔" محبوب الہیٰ مسکراتے ہوئے بولے-
جی سیدی سات لاکھ چیتل تو بہت کم ہیں اگر وہ سید زادہ میری جان بھی مانگتا تو جان دے کر نعلینِ مرشد حاصل کر لیتا-
یہ تھی ان کی اپنے مرشد سے محبت
اور حضرت نظام الدین اولیاء کا مقام معرفت
جس کی وجہ سے ان کو محبوبِ الہیٰ کہا جاتا ہے.
"تو" کی بھٹی
ہم میں سے اکثر بس طلب ہی طلب کے مردار خور گدھ ہیں جو طلب کی رسوئی میں مدھانی چلاتے رہتے ہیں چاہے ظرف کی مٹکی میں دودھ کے بجائے پانی ہو اور عمل کی جگہ صرف آبلے نما ہوں-
بات تبھی بنتی ہے کہ ہم اغراض کی جھولی کو اچھال دیں اور تہی دامن ہو کر صرف رخ ادھر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو سپرد کر دیں- اپنی " میں" کو تیاگ دیں اور "تو" کی بھٹی میں جھونک دیں - جہاں ذکر محبوب کے علاوہ کوئی عبادت کویئ ذکر نہ ہو- اعمال کو اتنا عاضز کر دیں کہ خود کی طلب سے بھی آذاد ہو کر ہر بات سے "نہی" ہو جائیں، پھر وقت کے دھارے پر خود کو سپرد کر دیں اور نقطہ وفا پر نظر دھرتے رہیں تو گر آپ نسبت والے ہوئے اور کسی کا کرم شامل حال رہا تو تب آپکو رفیق عطا ہو گا-
یہ رفیق کا عطا ہونا کوئی خود کی خوبی نہیں ہوتی بلکہ یہ معملات بروز وعدہ الست کے دن مقرر ہو چکے ہوتے بس انکا وقت کب کیسے ہوتا یہ علم ربا جی اور اس راستے کے رھبر و رارہور کو ہوتا-
بس ہمکو دعا یہ مانگنی چائیے کہ ھمارا کاسہ طلب خالی ہو، اغراض سے مبرا ہو اور ہم سے ہمارا رہبر اور مالک کل راضی
برضا ہو- آمین
کسی کو برا نہی کہنا چاہئیے بلکہ
دوستو
،بزرگ کہتے ہیں کہ کسی کو برا نہی کہنا چاہئیے بلکہ اس عمل کو برا کہو جو کوئی کر رہا ہوتا ہے، کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ جو ابھی برے کا مرتکب ہو رہا ہے وہ، کس لمحے کونسا ایسا عمل کر لے کہ جس سے اسکے مراتب پتقی و پرہیزگاروں میں ہو جائے- ہمارے سامنے ہمارے نور مبین پاک(ﷺ) کی مطہر پاک ذندگی کی امثال موجود ہیں-
زندگی کی حقیقت
زندگی کی حقیقت
کسی بھی چیز کی حقیقت جاننے کے لئے اس کا سامنا کرنا ضروری ہوتا ہے
اور زندگی کی حقیقت زندہ لوگ بہتر انداز میں جان سکتے ہین۔ "زندہ لوگوں سے
مراد باضمیر اور باشعور لوگ ہین۔ زندگی کا اصل چہرہ جتنا خوبصورت ہے، اتنا ہی
بدصورت بھی۔ شاید ہماری زندگی میں خوشی اور غم کی وجہ بھی یہی ہے۔ کہتے ہین کہ
زندگی ایک امتحان ہے مگر نہیں۔۔۔ زندگی بذات خود ہر لمحہ امتحان لیتی ہے۔ کبھی کسی
کمزور لمحے میں، جب ہمارے قدم بہک جائیں یا جب ہماری انا ہمیں اکڑ کر چلنے پر
مجبور کردے۔
حقیقت ہمیشہ تلخ ہی نہیں، شیریں بھی ہوتی ہے مگر یہ بھی زندگی کی ایک اور حقیقت ہے کہ کامیاب زندگی گزارنا ایک مشکل اور تکلیف دہ مرحلہ ہے کیونکہ جو شخص کامیاب زندگی گزار رہا ہوتا ہے، اس نے زندگی کا تلخ دور دیکھا ہوتا ہے۔ زندگی کی ایک اور حقیقت اس کا یکساں نہ ہونا ہے۔ کبھی اچھے دن، کبھی برے دن۔ جو اس کی مستقل مزاجی کے نہ ہونے کا ثبوت ہیں۔ شاید زندگی کی سب سے اہم حقیقت یہ ہے کہ آپ دوسروں کی دعائیں لیکر اور دوسروں کو معاف کرکے زندگی کو آسان بنا سکتے ہیں۔
حقیقت ہمیشہ تلخ ہی نہیں، شیریں بھی ہوتی ہے مگر یہ بھی زندگی کی ایک اور حقیقت ہے کہ کامیاب زندگی گزارنا ایک مشکل اور تکلیف دہ مرحلہ ہے کیونکہ جو شخص کامیاب زندگی گزار رہا ہوتا ہے، اس نے زندگی کا تلخ دور دیکھا ہوتا ہے۔ زندگی کی ایک اور حقیقت اس کا یکساں نہ ہونا ہے۔ کبھی اچھے دن، کبھی برے دن۔ جو اس کی مستقل مزاجی کے نہ ہونے کا ثبوت ہیں۔ شاید زندگی کی سب سے اہم حقیقت یہ ہے کہ آپ دوسروں کی دعائیں لیکر اور دوسروں کو معاف کرکے زندگی کو آسان بنا سکتے ہیں۔
جمعرات، 13 مارچ، 2014
ﺧﻮﺍﺟﮧ ﺑﺎﯾﺰﯾﺪ ﺑﺴﻄﺎﻣﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺮﺣﻤۃ
ﺧﻮﺍﺟﮧ ﺑﺎﯾﺰﯾﺪ ﺑﺴﻄﺎﻣﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺮﺣﻤۃ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﮧ
" ﺟﺐ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﮔﺬﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﺿﻮ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺣﺪﺙ ﺍﺻﻐﺮ ﻣﺎﻧﺘﺎ ﮨﻮﮞ، ﺍﮔﺮ ﺟﻨﺖ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﮔﺬﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻏﺴﻞ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺣﺪﺙ ﺍﮐﺒﺮ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﺗﻮ ﻭﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﺩﻝ ﺳﺮﺩ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺧﯿﺎﻝ ﺳﮯ ﺩﻝ ﻟﭙﮑﺘﺎ ﭼﭙﮑﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ، ﺻﺮﻑ ﮔﺬﺭ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ، ﺟﻨﺖ ﮐﯽ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﻃﺮﻑ ﺣﻮﺭﯾﮟ، ﻧﮩﺮﯾﮟ، ﻏﻠﻤﺎﻥ، ﺩﻭﺩﮪ، ﺷﮩﺪ، ﺷﺮﺍﺏ، ﻣﺤﻞ ﻣﺎﺭﺍٔﺕ ﻋﯿﻦ ﻭﮦ ﻧﻌﻤﺘﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺁﻧﮑﮫ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺩﯾﮑﮭﺎ، ﻧﮧ ﮐﺎﻥ ﻧﮯ ﺳﻨﺎ ﻧﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﺴﯽ ﺑﺸﺮ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ۔ ﺍﯾﺴﯽ ﻧﻌﻤﺘﯿﮟ! ﺟﺐ ﺍﺱ ﺧﯿﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺩﻝ ﮔﻢ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺧﯿﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺩﻝ ﻟﭙﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﭙﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺟﻨﺎﺑﺖ ﮐﮯ ﺩﺭﺟﮧ ﻣﯿﮟ ﺣﺪﺙ ﺍﮐﺒﺮ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻏﺴﻞ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ
”ﻃﺎﻟﺐ اﻟﻤﻮﻟﯽٰ ﻣﺬﮐﺮ ﻭ ﻃﺎﻟﺐ ﺍﻵﺧﺮۃ ﻣﺆﻧﺚ ﻭ ﻃﺎﻟﺐ ﺍﻟﺪﻧﯿﺎ ﻣﺨﻨﺚ“۔
ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﻃﺎﻟﺐ ﻣﺮﺩ ﮨﮯ، ﺁﺧﺮۃ ﮐﺎ ﭼﺎﮨﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﺎ ﺍﺱ کی ﺭﻭﺡ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﻃﺎﻟﺐ ﻣﺨﻨﺚ ﮨﮯ۔
ﮐﮧ
" ﺟﺐ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﮔﺬﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﺿﻮ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺣﺪﺙ ﺍﺻﻐﺮ ﻣﺎﻧﺘﺎ ﮨﻮﮞ، ﺍﮔﺮ ﺟﻨﺖ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﮔﺬﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻏﺴﻞ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺣﺪﺙ ﺍﮐﺒﺮ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﺗﻮ ﻭﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﺩﻝ ﺳﺮﺩ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺧﯿﺎﻝ ﺳﮯ ﺩﻝ ﻟﭙﮑﺘﺎ ﭼﭙﮑﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ، ﺻﺮﻑ ﮔﺬﺭ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ، ﺟﻨﺖ ﮐﯽ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﻃﺮﻑ ﺣﻮﺭﯾﮟ، ﻧﮩﺮﯾﮟ، ﻏﻠﻤﺎﻥ، ﺩﻭﺩﮪ، ﺷﮩﺪ، ﺷﺮﺍﺏ، ﻣﺤﻞ ﻣﺎﺭﺍٔﺕ ﻋﯿﻦ ﻭﮦ ﻧﻌﻤﺘﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺁﻧﮑﮫ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺩﯾﮑﮭﺎ، ﻧﮧ ﮐﺎﻥ ﻧﮯ ﺳﻨﺎ ﻧﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﺴﯽ ﺑﺸﺮ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ۔ ﺍﯾﺴﯽ ﻧﻌﻤﺘﯿﮟ! ﺟﺐ ﺍﺱ ﺧﯿﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺩﻝ ﮔﻢ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺧﯿﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺩﻝ ﻟﭙﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﭙﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺟﻨﺎﺑﺖ ﮐﮯ ﺩﺭﺟﮧ ﻣﯿﮟ ﺣﺪﺙ ﺍﮐﺒﺮ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻏﺴﻞ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ
”ﻃﺎﻟﺐ اﻟﻤﻮﻟﯽٰ ﻣﺬﮐﺮ ﻭ ﻃﺎﻟﺐ ﺍﻵﺧﺮۃ ﻣﺆﻧﺚ ﻭ ﻃﺎﻟﺐ ﺍﻟﺪﻧﯿﺎ ﻣﺨﻨﺚ“۔
ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﻃﺎﻟﺐ ﻣﺮﺩ ﮨﮯ، ﺁﺧﺮۃ ﮐﺎ ﭼﺎﮨﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﺎ ﺍﺱ کی ﺭﻭﺡ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﻃﺎﻟﺐ ﻣﺨﻨﺚ ﮨﮯ۔
رحمتوں کی طرف لؤ لگا لو
ماضی کو ویسے ہی پرے پھینکو جیسے انسان نہاتے ہوئے میل کچیل اتارتا ہے- سیانے کہتے ہیں کہ جو ماضی میں ڈوئی چلاتا رہتا ہے، اپنی خطاؤں کی لکیروں میں گم رہتا ہے تو ایسے شخص نے اپنی منزل کھوٹی کر دی ہوتی ہے ،اسے مالک پر بھوسہ نہیں ہوتا وہ شرک کا قصور وار ٹھیرتا ہے- دیکھو دوست، جو گزر گیا اسے خواب سمجھ کر بھول جاؤ جب جب ستائے تب تب رحمتوں کی طرف لؤ لگا لو- ایک آسان نسخہ بتاتا ہوں، جب جب دکھوں کا نفسانی جن سامنے آئے ،عصاب پر ہاوی ہونا چاہے،اسی لمحے اپنے سے نیچے والے کا ہاتھ تھام لو نیکی کی نیکی اور مدد کی مدد کسی کی-
انبساط
میری بات کی خوشبو کیوں گدگدائیں کسی کو، یہ میری ذات کی روح کی ادھوری کہانیاں ہیں، جنکو الفاظ کے سمیراؤں میں گوفوں کی مانند قلم سے بکھیر کر بھی خود کو انوکھا سیمابی شرارہ سموچ لوں-
جانتا ہوں، میری تحریر کوئی اثر نہیں رکھتیں، میرے الفاظ کوئی پر تاثیر نہیں، کسی کا مداوہ گر نہیں، مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ان الفاظوں کے رقص سے میری ذات میں زنجیریں نفس پرستی کی ٹوٹتی ہیں دھیرے دھیرے-
ہر لکھاوٹ جچے، انبساط عطا کرتی ہے اور جو وژن عطا ہوتا ہے وہ میرے علم کی بالیدگی کو جلا عطا کرتا ہے-
ایسے شیر روح انساں
یہ جو ھم چیختے چلاتے ہیں ناں ؟ کاہے کو ایسا کرتے؟ کیا مسسب الاسباب کو کمزور گردان کر شرک کی انتہا کر تے ہیں یا خود کو ما حاصل اسباب کا فرعوں کہنا چاہتے؟
بھائی دونوں صورتوں میں خاموشی سب سے بڑا ،محرب اور خوش کار ہے، نہ صرف ربا جی کے سامنے بلکہ ایسا کرنے سے انسان مقام انانیت کے درجوں کی طرف گامزن ہو جاتا ہے اور،
ذات میں ٹھیراؤ کے ساتھ ساتھ مرکز پر پہنچنے کی لگن بیدار ہوتی ہے- اور یہی وہ کلیئہ ہے جسکی چابی فقراء کے پاس ہوتی ہے اور جب وہ کسی ایسے شیر روح انساں کو دیکھ لیتے وہ چپکے سے اس کٹیا میں دھکیل دیتے
ہیں-
تارے کی تولید
کل رات میری ملاقات ہمارے ٹیلے کے جگنو
سے ہوئی، کئی دنوں بعد ملا مجھ سے تو میری ناراضگی سے وہ بھی شرمندہ ہو گیا- بولا،
زار صرف تم ہی تو نہیں ہو دلربا میرے، پورا اک جہاں ہے میری ذات سے منسلک- اسی
دوران برستی برف اور چھبتی یخ برفیلی ہوائیں تھم سی گئیں اور نیلا چاند اپنی
کنواری ٹھنڈی کرنوں کے پنکھ پھیلائے آسمان بشر پر ظاہر ہوا اور اپنی کنواری
تمتماتی پلکوں کو نیم وا کرکے جب افلاک پر نظر بھر کر دیکھا تو اسے احساس ہوا کہ، وہ جو خود کو جاں امبر سمجھتا ہے اوراس نیلے آکاش کی دیوی بن کر مہرباں
ہوتا رہتاہے، تووہ چاند جیسا خود چاندکتنا تنہا ہے، اتنے دل گرویدہ دیوانوں کے عشق مجنوں کی قطار میں-
اسی اثنا میں ، جگنو اور میں ندی
کنارے چلتے ہوئے، پہاڑی کی اوٹ لیتے ہوئے، آہستہ آہستہ سامنے والی کھلی چٹان کے
اوپر اگے ہوئے برف میں دبے صنوبر کے درختوں کے بائیں جانب قدرے
کھلے مقام کی جانب چل دیئے- برف کی تازہ
نرمیاں ہمارے وجود
کو سموچے شرمیلی دلہن کی طرح کسمسا کر سمٹ سی گئی پیروں تلے، اسکا نرم گیلا احساس
وجود میں سنسنی سی دوڑا گیا اور میں ٹھٹھر کر رہ گیا-
جگنو،
اسی ایک لمحے میں جزبز سا ہو کر میری جانب مڑا اور سرگوشی سی کہ، زار کیا خود سے
پرے وجود کل پر کبھی غور کیا ہے؟ کبھی سوچا کہ، وہ جو سارے جہان میں جوڑے اتارتا
ہے اور کبھی کسی بات میں کجی نہیں آنے دیتا ،کیا ایسی ذات بابرکات بھی خود کو تنہا
رکھ سکتی ہے؟- کیا نور وحدت اور نور مبیں
(ﷺ) الگ الگ صفات کاملہ لئیے ہستیاں ہیں یا ان میں بھی کوئی محرم جیسا رشتہ موجود ہے؟-
تبھی
مجھے اسی لمحے دادا ابا کی کہی ہوئی بات سوچ کی تختی پر لکھی دکھائی دی ،جہاں
درج تھا کہ، حضور پاک(ﷺ) نے ایک ملاقات میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے
دریافت فرمایا کہ ،" آسمان پہ چمکتے اس سرخ ستارے کو دیکھا کبھی؟" ،
فرمایا پیامبر قدس (علیہ السلام) نے کہ
برحق ،ہر ۷0000 سال بعد ۷0000 سال دوری کے
فاصلے پر ۷0000 دفعہ دیکھا ہے"- فرمایا
عین المبین(ﷺ) نے کہ قسم ہے وہ میری ہی ذات بابرکات(ﷺ) ہے-
میں
اور جگنو اسی سوچ کے تانوں بانوں میں الجھے محو گفتگو تھے کہ جگنو تقریبا
اچھل کر بولا کہ،زار وہ دیکھو
آسمان پر ،اور ھم دونوں گھٹنوں بل زمیں پر پڑ سے گئے، وہاں چاند کی
پپلائی ہوئی پھیکی روشنی میں سہمے ہوئے آسمان ارض پر "سرخ ستارا" آب و
تاب سے چمک رہا تھا- جدھر نظر جا سکتی تھی تمام کایئنات سر بسجود نظر آئی ادباِ"-
میری
ذات بے ثبات کے پور پور سے یہ صدا آنے لگی
کہ زار، جیسا کہ حضور پاک(ﷺ) نے ۱۴00 صدیوں تک کی تمام احول صحابہ کرام (رض) کے
سامنے تفصیل پیش کیے مگر جب بھی ۱۴ویں صدی
کا آغاز اور باتوں کا زکر خیر آتا، آپ (ﷺ) خاموش ہو جاتے ، اور وقت حالات ،افکار
امت اور مو جودہ نشانیوں کو دیکھیں تو عجب
نہیں کہ آپ اور میں ،بلکہ ہم سب خوشنصیب ٹھیریں کہ وہ لمحات مقدسہ عطا ہو کہ ھم
بھی حقیقی دیدار محبوبیئت(ﷺ) سے مستفیض
ہوں- آمین
گر یہ سچ ہے ، تو با
خدا ، رب جلال و جمال کی قسم کہ رب نہ کبھی
تنہا رہا نرہے گا وہ خود نور مبین(ﷺ) کا عاشق ہے اور یہ عشق مطہرہ ازل سے ابد تک ہر گا ، وحدانئیت کے "رمض
خفی" کے ساتھ- مگر آپ مجھکو، اب سے اس تارے کی تولید کا انتطار کرنا ہے، کالی
عشق کا ایک ادنی نمونہ بننا ہے ،ورنہ دھتکارے گئے تو
نہ ادھر کے رہیں گے نہ اس در مطہر(ﷺ) پاک
کے سگ خوش- جمعہ، 7 مارچ، 2014
عورت
موت کا ایک دن معین ہے نورین، وہی ہے وہ دن جب عورت،ایک حقیقی عورت سکھ سے آنکھیں موند کر سو جاتی ھمیشہ کو- ورنہ ساری عمر وہ ایک ایثار کی مشعل بن کر جاگتی رہتی ہے- اے عورت تجھے جینا ہے، جلنا ہے بکھرنا ہے، فنا ہونا ہے ،کیونکہ تجھ سے زمانہ ہے، ذندگی ہے- تو ہے تو سبھی رنگ ہیں ہیں- جنت کی خوشبو ہے، آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ،تو آدم کی ہمنوا ہے، انبیاء کی رفیقہ ہے، مجاہدوں کی جنم ماں ہے- تو سب ہے ،تجھے جو سمجھنا چاہے وہ کمبخت ہے، کبھی ماں کی بھی کھوج کسی بدبخت نے کی ہے کبھی-----اے عورت تو واقعی لا جواب ہے کیونکہ تیری کوکھ میں ربا جی نے رکھی میرے اسلاف کی پیدائش- تو ذہین ہے ورنہ تیری گود کو اولیاءاکرام کی پہلی تربیت گاہ نہ کہی جاتی، الغرض؛ عورت نہ ہوتی تو یقین کریئے، آج جو آپ ہیں وہ ممکن نہ ہوتا کبھی-
تمہاری حیثیت فقط ایک کردار کے........
کل شام کچھ لمحے میسر ہوئے مجھے تو میں نے اپنا سکیچ بورڈ اٹھایا اور سامنے والی پہاڑی پر جا بیٹھا، لمحے صدیاں سی لگیں، علم ہی نہ ہوا کہ میری سوچ کی پرواز میں سامنے کی ٹیکری پر ہندو بنئیے کی شاطر نظر مجھے اپنی دور بین سے کھوج رہا ہے، ہوش تب آیا جب ایک زناٹے سے سنسناتی گولی میرے بیٹھنے والی جگہ سے فقط ۵ فٹ کے فاصلے پر برف میں گھستی گئی،اور برف کی معصوم کرچیاں ایک خون نما کنکریاں سی بن کر میرے وجود بتاں میں کھبتی سی گئیں، اور میں وہیں برف پر دراز ہو سا گیا-
دو چار گولیاں اسی جگہ پر آ کر لگیں جدھر میں بیٹھا تھا کچھ لمحے پہلے-
وہیں بیٹھے بیٹھے میں نے ماحول پر نظر ڈالی،
سب چیزیں بلکل ویسے ہی تھیں جو مجھ پر گولیوں کی بوچھاڑ سے پہلے تھیں، مجھے بے ساختہ ہنسی آ گئی کہ زار خان شکر کر ربا جی کا کہ بچت ہو گئی ورنہ تو یہ بنئیہ کسی جوگے کا رہنے نہ دیتا اگر تم برف پر خود کو نہ پھینکتے-
مگر اسی لمحوں کے اندر ،کسی ایک لمحے میں لگا، ربا جی نے للکارا ہو جیسے، کہ نادان ،تو کیا، تیری بساط کیا؟ میرا کرم نہ ہوتا تو تیری پہچان کدھر کی رہتی!!!!!!!!!
اور اسی لمحے مجھے لگا کہ زار خان کی تو کوئی حیثیت نہیں، ہاتھ میں تھاما وہ سکیچ بک مجھے بہت بڑا لگا اور خود ایک بونا سا مجھے محسوس ہوا اپنا آپ- تھکے قدموں سے جب ایریا کلیرینس ملی واپس پلٹا تو مجھے اچھی طرح سمجھ آ چکی تھی یہ بات کہ ، زارخھاف خان اس ماحول میں تمہاری حیثیت فقط ایک کردار کے علاوہ کچھ نہیں، تم جو خود کو کچھ سمجھتے ہو وہ بھی صرف ایک کرم ہے ورنہ گولی کا چوکنا یا نہ صرف اس ذات بابرکات کی مرضی پر انحصار کرتا ھماری اپنی کوئی وش نہیں ہوتی ھم تو فقط کرداروں سے ذیادہ نہیں-
بھائی! بس سمجھ لو اب خود کی بساط ،فقط ایک کردار کے علاوہ کچھ نہیں، لحاظہ اپنا کردار بس بہتر سے بہتر کرتے جائیے- آمین
عشق کے مئہ کی طلب
جب بات کی جاتی ہے ،وجدان کی عشق کی تب ایک ہی بات ناکس عقل میں جا گزیں ہوتی ہے کہ؛
بے حجابانہ در آ از در کاشانہ ما
( اے نور مجلی، ہمارے گھر کے دروازے سے بے حجاب آ )
مگر بھائی! یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ عشق کی بساط پر قدم تب دھرئیے جب آپکے پاس مضبوط کھونٹا ہو، آپکا سالک "ماسٹر" آپکی رہنمائی اور بے ادبی کی گزارشوں سے دھیرے دھیرے گزار سکے، آپکی روح کی تولید سے لے کر شعور کی تولید تک رہنما ہو ، سالک ہو ،کامل ہو تب تو یہ منزل بمشکل آسان گزر ہی جاتی وگر نہ تو بے ادب اسی میں جل کر بھسم ہو جاتے-
بھائی! یاد رکھیئے اگر ادب کا پاس نہیں تو کبھی بھول کر بھی عشق کے مئہ کی طلب نہ کرنا ورنہ نہ ادھر کہ رہ
پاتے نہ "محبوب (ﷺ)کے نعلیں پاک کی دھول عطا ہوتی ہے
محرموں کے راز و نیاز کی باتیں
ساتھیو! پہلے عشق اور محبت کے فرق کو سمجھیں۔ محبت مادئیت کی طرف لے کر جاتی ہے ، جبکہ عشق فنا کے راہ کی کنجی ہے۔ جس نے مادہ کو مقصد بنا لیا وہ محبتوں کے سیلابوں میں گم رہتا ہے، جبکہ عشق کا روگی چاہے وہ کسی بھی صنف سے ہو اسکی جلا بس محبوب کا حب پانا بھی نہیں ہوتا، وہاں طلب کا کاسہ کبھی کا لیلی نے لے کر توڑدیا ہوتا ہے، نہ وہاں ز طلب ہوتی ہے نہ گماں نی جستجو، وہاں مراتب عشق ہوتے اور محرموں کے راز و نیاز کی باتیں جو حب و محبوب کے درمیاں حجاب در حجاب ہوتی ہیں