زار کے صفحے

اتوار، 16 مارچ، 2014

انا سے مبرا سفر انمول- سلوک کا

ہم گفتہ ناشید چرم شودم۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔کیونکہ ہم میں ذات سے ذیادہ صفات سے محبت ہوتی ہو ہم اسی پلڑے میں اپنی بوسیدہ سوچوں کی گٹھری کو بچھا کر صنم تراشتے ہیں ،تو ھمارے صنم کدہ کے بتان بھی موسموں جیسے اسلوب اپناتے ہیں، کسی کی معصومیت، کسی کی بےباکی ہمیں دھچکا دے تو ھم نفسانی جنگ کے نامدار بن جاتے-
اور کوشش کرتے کہ ھماری ذات سے متعلق جو کجیاں ہیں انکو نیست کرتے ہوئے اگلے کو نا صرف خود کا گرویدہ بنائیں بلکہ اسے اس طرح ہیچ کریں کہ ھمارے بت کی پرشتش شروع ہو جائے، جے جے کار ہو! تلک و سندور سے ہماری رچنا پوتر کی جائے-
مگر ان سب باتوں کے باوجود ہمارے اندر جل کی استیاں نہیں بجھ پاتیں کیونکہ ھم میں وہ تمیز ہی نہیں رہتی جو ھمکو ایک انسان سے آگے سوچنے کا اذن عطا کرے- کراھیت کے سنپولے کو بناوٹی  چاہ کے لبادے بے شک اڑھا دیں مگر انداز کی سادگی کدھر سے آئے گی؟
اسکے لیئے سب سے پہل یہ کرنا ہو گا کہ من کے گھروندے کے دوار بن کواڑ کے رکھنے ہوں گے اور تسنیم کی طرح ذات کی پرتوں کو بے باک کر کے عوام و خاص کے لیئے وا کرنا ہو گا- ہر ایک سے اسکے مراتب و سوچ کے منصب پر جا کر خود کو ہیچ ثابت کرنا ہو گا، تبھی ہمارے اندر کی دوشالہ اتر کر یک رنگی سے شناسا ہو گی اور یہ یک رنگی گر توحید کی پٹری کی شناسا نکلی تو  ممکن ہے کہ ذات کی اچھا دھاریوں میں سے سانپ کا زہر نکل کر فقط روح کا طریاق ہی رہ جائے-
مگر ان سب باتوں کا گیان تبھی مل سکتا ہے جب ہمارے ہاتھوں میں "لا" کی تلوار ہو اور قلب ہر خصوصی و عمومی سوچوں کی یلغار سے بےباک ہو- اسی طور تو ذات میں سیکھ کی جلا عطا ہوتی ہے اور بندہ عاجز ہو کر surrenderness کا عطر لگاتا ہے، جسکی مہک بندہ کو بندہ نواز بنا دیتا ہے، خود سے پرے اگلے سیارچے کا مسافر کر دیتا ہے، جہاں کی آبادکاریاں -اور نئے موسموں کا سراغ اسکی فطرط کا حصہ بن جاتی ہیں-      "جاری ھے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں