زاہد آنکھ بند کر کے من کی کٹیا میں بھنبھیری الاپتا ہے، عابد تقوے کے پٹے آنکھوں پر باندھ کر رشد کے صحیفے سناتا ہے، مگر پیر کامل صرف اک "ھو" کے صدقے سارے راستے عشاق کے طے کروا دیتا ہے-
یاد رکھنے کی بات ہے کہ، بس پیر کامل کے در سے اصحاب کھف کے کتے جیسی خو ہو بشر میں تو بات بنے ورنہ خالی نلی میں فقط پھونک بھی جا سکتی ،سیپ کہ مانند اس میں سے موتی نہیں نکلتے آسمان عشاق کے-
دعا ہونی چاہیئے کہ پیر کامل کی نسبط عطا ہو، باقی سب مایا ہے، فانی ہے- سب یہیں کے چھل ہیں، سب یہیں رہ جانے ہیں
یہ جو اندر کی آواز ہوتی ہے ... بڑی ظالم ہوتی ہے .. خود سے راستہ ڈھونڈھ لیتی ہے ،
جواب دیںحذف کریںخود سے آواز کا درد سوز اداسی ،
ساز پر چھیڑ جائے تو اپنا مقام گرز یہ کے ہے .. ہے وہی ہے ...
ذات میں ذات ک نفی میں ...
تسلیم کروا لیتا ہے ... چن لیتا ہے ...
باہر کی گرمی کو ٹھنڈک میں بدل دیتا ہے....
درد کو ساز و آواز میں بھی ملا ...
سجدوں خیراتوں میں بھی ملا ...
ملا جب بھی تو صدا اندر سے " ھو " بن کر ...
کہن " حق " ... کہیں سولی ...
کہیں سر قلم ...
پھر بھی رہا اور ہمیشہ رہے گا....
حق هو
الله ھو