زار کے صفحے

جمعہ، 7 مارچ، 2014

تمہاری حیثیت فقط ایک کردار کے........


کل شام کچھ لمحے میسر ہوئے مجھے تو میں نے اپنا سکیچ بورڈ اٹھایا اور سامنے والی پہاڑی پر جا بیٹھا، لمحے صدیاں سی لگیں، علم ہی نہ ہوا کہ میری سوچ کی پرواز میں سامنے کی ٹیکری پر ہندو بنئیے کی شاطر نظر مجھے اپنی دور بین سے کھوج رہا ہے، ہوش تب آیا جب ایک زناٹے سے سنسناتی گولی میرے بیٹھنے والی جگہ سے فقط ۵ فٹ کے فاصلے پر برف میں گھستی گئی،اور برف کی معصوم کرچیاں ایک خون نما کنکریاں سی بن کر میرے وجود بتاں میں کھبتی سی گئیں، اور میں وہیں برف پر دراز ہو سا گیا-
دو چار گولیاں اسی جگہ پر آ کر لگیں جدھر میں بیٹھا تھا کچھ لمحے پہلے-
وہیں بیٹھے بیٹھے میں نے ماحول پر نظر ڈالی،
سب چیزیں بلکل ویسے ہی تھیں جو مجھ پر گولیوں کی بوچھاڑ سے پہلے تھیں، مجھے بے ساختہ ہنسی آ گئی کہ زار خان شکر کر ربا جی کا کہ بچت ہو گئی ورنہ تو یہ بنئیہ کسی جوگے کا رہنے نہ دیتا اگر تم برف پر خود کو نہ پھینکتے-
مگر اسی لمحوں کے اندر ،کسی ایک لمحے میں لگا، ربا جی نے للکارا ہو جیسے، کہ نادان ،تو کیا، تیری بساط کیا؟ میرا کرم نہ ہوتا تو تیری پہچان کدھر کی رہتی!!!!!!!!!
اور اسی لمحے مجھے لگا کہ زار خان کی تو کوئی حیثیت نہیں، ہاتھ میں تھاما وہ سکیچ بک مجھے بہت بڑا لگا اور خود ایک بونا سا مجھے محسوس ہوا اپنا آپ- تھکے قدموں سے جب ایریا کلیرینس ملی واپس پلٹا تو مجھے اچھی طرح سمجھ آ چکی تھی یہ بات کہ ، زارخھاف خان اس ماحول میں تمہاری حیثیت فقط ایک کردار کے علاوہ کچھ نہیں، تم جو خود کو کچھ سمجھتے ہو وہ بھی صرف ایک کرم ہے ورنہ گولی کا چوکنا یا نہ صرف اس ذات بابرکات کی مرضی پر انحصار کرتا ھماری اپنی کوئی وش نہیں ہوتی ھم تو فقط کرداروں سے ذیادہ نہیں-
بھائی! بس سمجھ لو اب خود کی بساط ،فقط ایک کردار کے علاوہ کچھ نہیں، لحاظہ اپنا کردار بس بہتر سے بہتر کرتے جائیے- آمین



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں