زار کے صفحے

جمعہ، 14 مارچ، 2014

"تو" کی بھٹی

ہم میں سے اکثر بس طلب ہی طلب کے مردار خور  گدھ ہیں جو طلب کی رسوئی میں مدھانی چلاتے رہتے ہیں چاہے ظرف کی مٹکی میں دودھ کے بجائے پانی ہو اور عمل کی جگہ صرف آبلے نما ہوں-
بات تبھی بنتی  ہے کہ ہم اغراض کی جھولی کو اچھال دیں اور تہی دامن ہو کر صرف رخ ادھر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو سپرد کر دیں- اپنی " میں" کو تیاگ دیں اور "تو" کی بھٹی میں جھونک دیں - جہاں ذکر محبوب کے علاوہ کوئی عبادت کویئ ذکر نہ ہو- اعمال کو اتنا عاضز کر دیں کہ خود  کی طلب سے بھی آذاد ہو کر ہر بات سے "نہی" ہو جائیں، پھر وقت کے دھارے پر خود کو سپرد کر دیں اور نقطہ وفا پر نظر دھرتے رہیں تو گر آپ نسبت والے ہوئے اور کسی کا کرم شامل حال رہا تو تب آپکو رفیق عطا ہو گا-
یہ رفیق کا عطا ہونا کوئی خود کی خوبی نہیں ہوتی بلکہ یہ معملات بروز وعدہ الست کے دن مقرر ہو چکے ہوتے بس انکا وقت کب کیسے ہوتا یہ علم ربا جی اور اس راستے کے رھبر و رارہور کو ہوتا-
بس ہمکو دعا یہ مانگنی چائیے کہ ھمارا کاسہ طلب خالی ہو، اغراض سے مبرا ہو اور ہم سے ہمارا رہبر اور مالک کل راضی 
برضا ہو- آمین


1 تبصرہ:

  1. طلب کے کاسے میں سواۓ اس کی ذات اور خوشی کے باقی کچھ نہیں ہوتا نا کوئی "تو" اور نہ کوئی "میں" ... مگر اس کے ساتھ ہی اک اور طرز فکر بھی ہے ، شخصیت کے بارے میں زر طشت لکھتا ہے " دیکھ اپنی " میں " پر آرا نہ چلنے دینا ورنہ نہ " میں " رہے گا اور نہ "تو" تک پہنچ پاۓ گا .
    (دو الگ اور مفرد پہلو سوچ کے سفر میں )

    جواب دیںحذف کریں