بدھ، 26 فروری، 2014

عشق کی گلی


رکو ! رکو تو، ارے ہاں یہ تمہی کو پکار رہا ہوں، رکو ،رکتےکیوں نہیں،چلو جی ؛اگر رکتے نہیں ہوتو ذرا سنتے ہی جاؤ ، یہ گلی جس میں تمہارے قدم پڑنے ہی والے ہیں یہ گلی عشق کی گلی کہلاتی ہے، یہاں ادب لازم ہے بابا-
سنو تو، ایک تو تم رک کر دو بول سن بھی لیا کرو سنا تم نے۔۔۔۔۔۔۔۔ہے میں یہ تمکو کہہ رہا ہوں ادب بہت لازم ہوتا یہاں، سنا ناں تم نے ،کہتے ہیں اس گلی کے پہلے پیامبر (علیہ السلام) جو عشق کا سندیسہ لاۓ تھے وہ اپنے پر بھی سمیٹ کر ادباٰ سرھانے حسن ماہ و فللق (ﷺ)پاک خیر کیلئے خاموش رہے اور جب ہمت نہ بن سکی تو بلآخر پاوں کے تلووں کو چوم لیا؛ یہ ہوتا ہے ادب، ایسا ہوتا ہے نامہ بر اور ایسا روا رکھا ہے عشق کی گلی والوں کا مقام عشاق نے -
کہتے ہیں گلی والوں نے مقام عشق کے زیر و زبر طے کر رکھے ہیں، سمجھے ناں تم، اب بھی تم ویسے ہی قدم دھرو گے وہاں؟ اس گلی میں ! اس بے ساختگی سے۔۔۔۔۔!!!!


منگل، 25 فروری، 2014

غلط الفاظ

"ڈی"میں گر تمہاری عزت نہ کرتا تو تمکو پہلے دن ہی اپنی تصویر ہٹانے کا نہ بولتا۔ یہ ڈی پی نہ دیتا ،میں بھی تمہارے وجود کا رسیا نکلتا، تمکو نظروں میں ہی ہوس کا جلاد بنکر بھسم کر دیتا۔ مگر تم کو حیا سے آنکھوں میں سموچا اور تم سج گئیں اس نئی ڈی پی سے-
اب بات کرتا پروپوز کا ، تو بی بی یہ اسلامی حق مجہے میرے نبی (ﷺ)پاک خیر نے عطا کیا اس گنہگار امتی کو- خیر میری ہر کوشش کے باوجود جب تم نے مجھے منع کر دی تو میں سمجھ گیا تم جان بوجھ کر ایسا کر رہی ہو۔ کیونکہ تم نے نہائیت غلط الفاظ اپنے خاندان بڑوں کیلیئے استمعال کیے۔ جو واقعی مجھے برے لگے کیونکہ وہ کچھ بھی ہوں جو بھی اصول دھرتے ھوں ھیں تو ماں باپ اور بڑے تمہارا کام انکی شان بڑھانا ہے دوسروں کی نظر میں نہ کہ نیچا دیکھانا-
خیر تمہاری ذات کی دوسری کجی اس وقت نظر آئی جب تم میرے گھر،فارم ھاوس اور مری کاٹج کو دیکھ کر خود ہی کمپلکس کا شکار ھو کر عجیب عجیب بیھیویر شو کرنے لگیں- تمکو اپنا آپ چھوٹا نظر آنے لگا
اسی دوران،
تمہارا رشتہ بھی آ گیا، تم نے جنید کو برا بھی بنا دیا اور میری تعریفوں کے آسمان قلابے بنا دئیے۔ میں تو وہی رہا مگر تمہارے بیانات میرے لیئے بدلتے گئیے- میں سمجھ گیا تم سے خود کی ذات نہیں سمبھل رہی آئی ڈیسائیڈڈ کے تمکو ہر طرح سے پرکھ لوں-
آخری ڈیسیزن سے پہلے- تبھی جب مسکراتے ہوئے تمکو تھوڑا چھیڑا تو تم نے نہ صرف میری ذات بلکہ میرے اسلاف کی تربیت پربھی انگلی اٹھائی- تو بی بی مجھ میں تم میں یہی فرق ہے مجھے اپنے بزرگوں کی عزت عزیز ہے، تم کوئی انوکھی لڑکی نہیں تم ایک لو مڈل کلاس گرل ھو ( بقول تمہارے) جبکہ میں نے آدم جی کی پوتی کا رشتہ ، جاپان والا کی پڑپوتی کا رشتہ ٹھکرا رکھا ہے
میرے نذدیک جسم یا صورت اہم نہیں- میں فقط تمکو اس لیئے پروپوز کیا کیونکہ تم نے خود کو مدرسہ والی، نفسیات کی ڈاکٹر اور سرکار مطہر پاک(ﷺ) خیر کی خود کو جوگن کہا تھا، میں تو اسی لمحے تم پر بک گیا ، سوچا کہ جو بھی ھو جیسی بھی اسکو اپنا لو یہ تو سدا کی عاشق ھے میری تو بات بن جانی مگر جب تم نے بار بار جتلانا شروع کیا تو مجھے قران پاک اور فرمان پاک(ﷺ)خیر ،اولیا اکرام کی باتیں سامنے آ گئیں کہ عشق یا رسول پاک (ﷺ) خیر تو سات پردوں میں چھپائی چیز ھوتا، روح حلال ھو جائے مگر اظہار نامحرم بنا دیتا ہے-
مجھے تو تم جتنی گہری نظر آئیں ھوتے ھوتے تم ایک سمندر کے بجائے ایک بلبلے سے بھی
ہیچ ھو گیئں-
مگر پھر میں نے سب بھلا کر چاہا کہ تمکو اپنا لوں تاکہ تم جس راہ پر ھو اسکی اصیل
پاوں اور ھم چلتے چلتے اصل منزل کو پا ھی لیں کبھی!!!---------مگر مجھ پر مجھکو سمجھنے کا دعوی کرنے والی ،اپنا عکس کہنے والی نے مجھے فٹاک سے میرے بزرگوں کے ساتھ الٹا بول دیا۔۔۔۔ یہ نھیں قبول مجھ کو کیونکہ تم نے میرے ماں باپ کی ڈیتھ کو لاجگ دی مجھے سزاکے طور پر مالک کی طرف سے اور تم نے،اسکو جو تم سے دس گنا ھر طرح سے خوبصورت لڑکی جس میں میرا ہی خون تھا اسکی موت کو میرے لیئے سزا کہا- یہ غلط کیا- بھت غلط، میرا پیار میرا مان ھے-
میرے بڑے میری پہچان ہیں-
بس میری آج یہ سوال ھے ربا جی سے کہ میں واقعی سزا پا رہا ھوں تو یہ بہت بڑا جھوٹ ہو گا اور اگر نرمین کے بعد"ڈی"واقعی سچائی سے مجھے اچھی لگی ھے تو وہ خود آئے گی اور بہو بنکر ایک چھوٹی بہن بنکر نرمین کی آرام گاہ پر جاکر ان سے سوری کرے گی، مجھے تم سے سوری نہیں بلکہ ان سے سوری کرنا دیکھنا ھے اور تمہاری عزت کو نکھارنا میرا کام ----------بس اب میرا انتظار تمہارا پلٹنا ہے، ربا جی کی طرف رجوع رہنا ہے کہ وہ 
"ڈی" عطا کریں 



پیر، 24 فروری، 2014

کیا یہ ہی پیار کا وچار ہوتا ہے؟ کیا یہ ہی معجزات کا افکار ھونا ھوتا ہے

وہ دیونگی دیکھی اس میں جو سوچ کے صحیفوں میں کبھی سمجھے تھے- وہ اس الجھی سی لڑکی کے بے ترتیب حلئیے کو تکتا رہا- اسکی آواز میں شدت تھی، کپکپاتا وجود اور ناک پر ٹھیرا ٹھنڈاپسینہ گواہی دے رہا تھا کہ وہ سر تا پیر، عشق کے سرابوں میں اٹی پڑی ہے-
وہ دھیرے سے آگے بڑھتا آیا اور اسکے سامنے ھاتھ باندھے کھڑا ھو گیا کہ اسکی ذات کے سامنے ایک ڈھاج سا بن گیا ہو جیسے- وہ اسے بار بار جتلا رہی تھی کہ وہ ایک سر پھرا اور سطحی سوچ کا حامل انسان ھے جسکو باتیں بنانے کے علاوہ کچھ نہیں آتا، لفظوں کی قرطاس بکھیرنا اور لوگوں کی داد کا حصول اسکا مقصد ٹھیرا ہے۔
وہ اپنی گہری گرئے ھیزل آئیز کو اس پر جمائے تک رہا تھا- لبوں پر ہمیشہ کی طرح دھیمی مسکاں تھی- وہ اپنے سکارف کو سرد سپید انگلیوں سے درست کرتی اسکو بول رہی تھی کہ وہ حقیقی عشق کا فرقان کیا جانے، ایک داسی کی محبت کتنی گہری ھوتی اسکی \"ھو\" کیسے سمجھ سکتا، بھلا چمراغ کے سینے میں جو مشک عنبر جیسی مہک ابھرتی اسکا ما حاصل وہ کیا جانے۔۔۔۔۔کپکپاتے وجود کو خود میں مضبوط کرتی وہ بار بار باور کروا رہی تھی کہ اسکا عشق بہت پائیدار اور منفرد ہے، وہ عشق کے مراحل طے کرکے بڑی مشکل سے اپنے حقیقی عشق سے مدھبن مہہ الست پی چکی ہے ،اب اسے کسی کی ضرورت نہیں-----
مگر وہ جو گرجتا تھا، جسکی آواز کی گونج اسکے اپنے قبیلے کے لوگوں میں بھی گرمیئوں کے گرم موسموں میں بھی سرد لہر دڑوا دیتی تھیں آج اس چھوئی موئی سی ماہ و انج کے سامنے گمبیرتا لئیے ھوئی تھی- جب اس نے اسکی آنکھوں میں جھیل اترتی دیکھی تو وہ ایک بچے کی مانند تڑپ سا گیا جو ماں کی بلکتی لاش کو جیسے آذادی کے تحفے میں کسی پرچم کے بجائے بیچ چوراہے ٹانک دیا گیا ھو اور سب متائے عزیز وطن آتے جاتے اسکے لاشے کی آڑتی اتارتے ھوں- مگر وہ اسکا اپنی کوکھ کا جنا دیکھے تو تڑپ کر اس ترنگے کو ڈھانکنا چاہے-
ویسی ہی بےساختگی سے اس نے بھی اس کے سامنے اپنا وجود گھٹنوں کے بل لیرا دیا اور دھیمے سے اپنی دونوں بند مٹھیاں جو کب سے اسکے کرب کو سہتے سہتے بھنچ کر خود میں ہیچ ھو گئی تھیں اسکے سامنے کھلتی گئیں اور وہ فقط اتنا ہی کہہ پایا،\" رخ ماہ، میں جانتا ھوں تمہارے عشق کی مہ کے سامنے نہ میری اوقات ہے نہ میری ذات کی کوئی اہمیت مگر تم فقط اتنا کر لو کہ اپنے عشق نبیانہ(ص) کے صدقے اپنا سارا غضہ میری ان ھتیلیوں میں تھوک دو\"،اور اسی لحمے ماحول کے اس تغیر میں مواذن کی آواز گونجی ،\" حئی الفلاح حئی الفلاح\"-----------اور وہ دونوں، اسی لمحے کا سر 
بنکر بت سے ہو گئے----------کیا یہ ہی پیار کا وچار ہوتا ہے؟ کیا یہ ہی معجزات کا افکار ھونا ھوتا ھے



اتوار، 23 فروری، 2014

عارف کی محبت کا انداز جداگانہ ہوتا ہے


کہتے ہیں کہ عارف کی محبت کا انداز جداگانہ ہوتا ہے؛ ماننے کی بات بھی ہے۔ یہ بھی پڑتے آئے کہ حضرت علی (رض) علم 
کی شہر کا دروازہ ہیں اور شہر علم حضور پاک (ﷺ) ہیں- شروع میں سمجھ نہ آئی بات مگر وقت کے چرخہ نے بتلایہ کہ ، علم لدھنی وہ علم ہے جو نبوت کے بعد دوام کا حامل ہے۔
اور عشق حقیقی کی میراث کن یہی علم ہے- یہ علم عطا ھوتا ہے، اسکے حصول کی طلب بھی شرک کا مقام رکھتی ہے۔ یہاں حب اور محبوب کی راز و نیاز کی گفتگو آسمانوں پر بھی حجابات سے چھپی ہوتیں- مگر کوئی کبی یہ خیال نہیں کرتا کہ آخر حضرت علی (رض) ہی کو اس مہ الست کا رہوراں کیوں مقرر کیا گیا؟۔
بھائی! گر راہ سلوک کی منزل کا مسافر بننا ہے تو \"دم اندر دم باہر\" موتو قبل انتموتو کی پہچان حاصل کرنے کیلیے عشق حیدری(رض) کا حصول ضروری ہے ورنہ ڈبہ پیر تو ہر گلی کے نکڑ پر مل ہی جائیں گے مقام فنائیت کا ظہور عطا نہیں ھو گا نہ ہی کوئی رہبر نصیب ہوگا۔ ساری عمر سمرخ کی طرح چکریوں میں پڑا رھنا نصیبہ بن جانا ہے۔



جمعہ، 21 فروری، 2014

مظہر “کن فیکون“ جیسی ھستی کا نظر کر م


کبھی خود آگہی کسی کو وہ معراج عطا کرتی ہے،جسکی کھوج میں زمانہ گردشوں کے نشیب وفراز میں سرگرداں نظر آتا ہے تو کبھی اندر کی جوالا مکھی بنکر وہ تاتارئوں کو بھی ہیچ کر دے-
الغرض،ذات میںگر سیمابی کیفیت نہ ھو تو زمان و مکاں کے تار بجتے نہیں اور اندر کی “نے“کسی کی بنسری بن کر بجتی نہیں نہ ہی نالہ و فغاں بنکر کسی امید سحر کی نوید بنتی۔
قوموں کا عروج و زوال بھی کچھ اسی طرح کا ھوتا ھے۔جب وقت کا شہسوار دلیل و فکر کا چولا زیب تن کیے علم کی زرہ پہنے،ہاتوں میں عظم کی تلوار تھامے تنہا صحراے زیست میں جب نکلتا ھے تو کل کائنات گنگ ھو جاتی ھے۔ خالق کل بھی متوجہ ھو کر اپنی تخلیق کو محویت سے تکنے لگتا ہے۔ 
یہی وہ لمحے ھوتے ہیں کہ جب وقت کا سر رک جاتا ھے، ھر چیز حیرت کے سمندر میں معجزن ھو جاتی ھے۔ یہ وجدانی کیفیات فرد سے لیکر قوموں تک پر کم از کم ایک بار تو ضرور عطا ھوتی ہے۔ “کرم“ شامل حال ھو تو صاحب وقت کی عطائیت ساتھ نصیب ریے تو یہ مواقع بار بار رفیق رھتےمگر اس کے لیے “صاحب وقت“ اور وہ بھی مادر ذات ننگی تلوار کی مانند ،مظہر “کن فیکون“ جیسی ھستی کا نظر کر م ساتھ ہونا اول شرط ھے۔
تبھی انفرادی یا قوموں کے مقام “قلب“ پر “ھو“ کا نزول ھونا، “تو“ کے قالب میں ڈھلنا“، سمے کا ایک ایسا لمحہ بننا جو لاہوت لا مکاں سے بھی ماورا ھو۔ یہ سب تبھی ممکن جب “رخ“ عطا ھو۔ یہ رخ عطا ھونا بھی ایک نصیبہ ھے،یہ ھر ایک کے کاسہ میں نہیں ڈالا جاتا۔ یہ صرف اس مومن کا نصیبہ ھوتا جسکو ایک مادر ذات برھنہ شمشیر کی مانند ،اندھیروں میں نکلے تارے کی مانند پرھیزگار و متقی خاتون کا شیر عطا ھوا ہو۔ورنہ حرام خوراک کا ایک دانہ بھی جسکے شکم میں ھو وہ اس سفر کی گرد کا ایک ذرہ بھی نھیں پا سکتا چاھے اس میں صدیاں ہی کیں نی بیت جائیں۔




جمعرات، 20 فروری، 2014

چودھویں صدی و مابعد(باب اول - حصہ-i)










ایک روایئت ہے کہ حضور پاک(صلیہ الیہ وآلہ وسلم) نے تیرھویں صدی تک کے حالات کی خبر دی۔ اور چودھویں صدی کا جب ذکر آیے تو خاموش ھو گئے۔ ایک ضعیف روائیت یے کہ آپ(صلیہ الیہ وآلہ وسلم) نے خود آنے کی بھی بشارت دی۔ مہدی آخرالزمان(علیہ السلام) کی باببت بھی ایسا ہی لوگوں کا قیاس ہے۔
اگر عقیئدہ کو باطن کے ساتھ منسوب کریں تو " کن فیکون"جاری و ساری ھے۔ نور محمد (صلیہ الیہ وآلہ وسلم) سلسلہ جاریہ ہے اور حرم دل عالم میں مہدی(علیہ السلام) اذان بھی دے چکے ھیں۔
ہم نے سنا ھے کہ لوگ کہتے ہین " کل شی زائقتہ الموت" جبکہ باطن کا فقیر ،"کل شی ذائیقتہ السلام" کہتا ہے۔ اور درحقیقت یہ ہے ہی اتنا پیارا زمانہ کہ آپکے پاس کوئی چیز ہے تو اسکو قبول کرنے کیلیئے بہت سے قلب تڑپ رہے ھیں
 اور لوگ اس زمانے کو برا زمانہ کہتے ہیں
بہ نسبت دو صدی پہلے کے آج بھی فاسق و فاجر مسلمان تک میں اس نام محبوب(صلیہ الیہ وآلہ وسلم) کی لاج رکھنے کیلیئےبے پناہ جوش ہے۔ یہ جوھر کسی دوسری قوم میں نھیں۔ اس والہانہ محبت کا تعلق عبادات سے نہیں بلکہ یہ ایک لطیف جذبہ ہے اور الغرض ہم انہیں لطافتوں پر نظر رکھے رہیں تو صلاحیتوں کے لحاظ سے یہ زمانہ بہتر زمانہ کہلائے گا۔
یہ عین اصول طتری ہے کی جب اندھیرا ذیادہ ھو گا اور دھند ماحول پر چھائی ہو گی تب اس ماحول میں دھندلی سے دھندلی روشنی بھی، شمع درخشان سی نظر آئے گی۔اسی لیے آج کا زمانہ بہیں زمانہ کہلانے کا مستحق ھے۔ ایک ذرا سی سعی باطن یا ظاہر کی وق گل کھلاتی ھے کہ مذبذب ایمان بھی قوت پکڑتے جاتے ھیں۔
اب تقاضہ یہ ھے کہ بظاہر نام کے مسلمان کی اصلاح کی جائے- گو کے یہ کٹھن ھے کہ ظاہری تعلیم اور رشد و ھدائیت سے کام نہیں  بن
سکتا ،وہ  دور ختم ھو گیا ھے۔ظاہر کا فقط خول ہی خول رہ گیا ہے۔ اور باطن بھی گل ھو چکا ھے- اسکی مرمت نہیں ھو سکتی۔۔۔۔اگربفرض محال ھم اتنے ہی بےبس ھو گئے ہیں تو پھر وہ اصلاح اور روشنی کیو نکر ممکن ھے، اسکو اگلی تحریر میں پیش کرنے کا اذن عطا ھو آمین۔۔۔جاری ھے

بدھ، 19 فروری، 2014

آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم


حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم چودہ سو اشخاص کی جماعت کے ساتھ ایک سفر میں تھے، صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بھوک سے بے تاب ہو کر سواری کی اونٹنیوں کو ذبح کرنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع فرما دیااور حکم دیا کہ تمام لشکر والے اپنا اپنا توشہ ایک دستر خوان پر جمع کریں ۔چنانچہ جس کے پاس جو کچھ تھا لا کر رکھ دیا تو تمام سامان اتنی جگہ میں آ گیا جس پر ایک بکری بیٹھ سکتی تھی لیکن چودہ سو آدمیوں نے اس میں سے شکم سیر ہو کر کھا بھی لیا اور اپنے اپنے توشہ دانوں کو بھی بھر لیا کھانے کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پانی مانگا،ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک برتن میں تھوڑاسا پانی لائے ، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو پیالہ میں انڈیل دیا اور اپنا دستِ مبارک اس میں ڈال دیا تو چودہ سو آدمیوں نے اس سے وضو کیا۔ 
(مسلم جلد۲ ص۸۱ باب استحباب خلط الازواد)

منگل، 18 فروری، 2014

مومن خان مومن


جسے آپ گِنتے تھے آشنا،جسے آپ کہتے تھے با وفا
میں وہی ہوں مومن مُبتلا،تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو!




حضرت سرّی سقطی رحمۃ اللہ علیہ


حضرت سرّی سقطی رحمۃ اللہ علیہ بغداد میں حقائق توحید کے ذکر میں بڑے مشہور تھے، آپ بہت بڑے صاحب طریقت ولئ کامل تھے، تبلیغ دین اور شریعت کی اشاعت آپ کا نصب العین تھا، آپ اپنے کاروبار میں بہت ہی کم منافع لیا کرتے تھے، حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے بھانجے تھے،
آئیے آپ کی تعلیماتِ عالیہ ملاحظہ کریں:
(۱) امیر پڑوسیوں، پیشہ ور قاریوں اور بد خُلق علماء سے دور رہو۔
(۲) جو شخص چاہے کہ اس کا دین سلامت رہے، جان و مال کی خیر ہو اور غم میں کمی ہو، اُسے چاہئے کہ خلق سے مناسب فاصلہ رکھے۔
(۳) کھانا اتنا کھانا چاہئے جس سے زندگی قائم رہے۔
(۴) کپڑے پہننے میں نمائش باعثِ عذاب ہے۔
(۵) رہائش کے لئے محلات بنانے سے جنت نہیں مل سکتی۔
(۶) وہ علم بیکار ہے جس پر عمل نہ کیا ہو۔
(۷) مومن وہ ہے جو کاروبار زندگی میں بھی یادِ الٰہی سے غافل نہ ہو۔
(۸) کاش تمام مخلوقات کا غم میرے دل پر ہوتا تاکہ سب فارغ البال ہوتے۔
(۹) اگر کوئی اپنے ادب سے عاجز آتا ہے تو دوسروں کے ادب سے ہزار بار عاجز آتا ہے۔
(۱۰) تم کو ایسے بہت سے لوگ ملیں گے جن کا فعل ان کے قول سے مطابق نہیں رکھتا، مگر بہت کم ایسے بھی ملیں گے جن کا فعل و عمل ان کی زبان سے عین مطابق ہو۔
(۱۱) سب سے بڑا دانشور وہ ہے جو کلام اللہ شریف کی آیات مبارکہ پر غور و فکر کرے اور ان سے تدبر و تفکر کو کام میں لائے۔
(۱۲) جو اپنے نفس کا طیع ہوجاتا ہے اس کے لئے تباہی کے سواء کچھ نہیں ہے۔
(۱۳) جو شخص اپنے آپ کو بلند مرتبہ کہلوانا پسند کرے نگاہِ حق سے گرجاتا ہےؤ
(۱۴) حسنِ خُلق یہ ہے کہ خلقت تجھ سے راضی ہو۔
(۱۵) محض گمان پر کسی سے علاحدگی اختیار مت کرو۔
(۱۶) بغیر عتاب کے کسی کی صحبت مت چھوڑو۔
(۱۷) اس شخص سے بچو جو باعزت ہو کر مجلس میں بیٹھے اور بے عزت ہوکر نکالا جائے۔
(۱۸) عشق حقیقی تو وہ ہے جو جذبہ عمل کو تیز کردے۔
(۱۹) حق پر چلنے والے کا پاؤں شیطان کے سینہ پر ہوتا ہے۔
(۲۰) علم کی مثال سمندر جیسی ہے خواہ کتنا ہی خرچ کرو کم نہ ہوگا۔




تُو غالبؔ


کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو
نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو
کِیا غم خوار نے رسوا، لگے آگ اس محبّت کو
نہ لاوے تاب جو غم کی، وہ میرا راز داں کیوں ہو
وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو
قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
یہ کہہ سکتے ہو "ہم دل میں نہیں ہیں" پر یہ بتلاؤ
کہ جب دل میں تمہیں تم ہو تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہو
غلط ہے جذبِ دل کا شکوہ دیکھو جرم کس کا ہے
نہ کھینچو گر تم اپنے کو، کشاکش درمیاں کیوں ہو
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں
عدو کے ہو لیے جب تم تو میرا امتحاں کیوں ہو
کہا تم نے کہ کیوں ہو غیر کے ملنے میں رسوائی
بجا کہتے ہو، سچ کہتے ہو، پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو
نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تُو غالبؔ
ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو





Zaat e wala begumaan



Jab se mujh ko aapki nisbat mili ya GHOUS E PAK,
zindagi phir bangayi hai yeh zindagi GHOUS E PAK.

Kis qadar anmol hai tohfa mujhe bughdaad ka,
bakht se main bhi hua hoon Qadri GHOUS E PAK....
See More




Zaat e wala begumaan ' ghousul wara peeran e peer,
aye nabi ke noor ' noor e murtaza peeran e peer.

Auliya ke dosh par jaise hai qadam hai aapka,
hum pe bhi rakhiye qadam lillah zara peeran e peer.

Ho karam ki ik nazar mujh par bhi aye mahbub e rab,
main bhi adna gada ' adna gada peeran e peer.

Khud shanasi haq shanash ka sabaq aye dastageer,
aap ki nisbat se hum ko mila peeran e peer.

Daakoun ko raah e haq batlaya bachpan mein huzoor,
yeh bhi hai adna karamat ki ada peeran e peer.

Aarzo hai ek din aaye ZIA bughdaad ko,
kijiye aasi ko parwana ata peeran e peer. Ameen










ﺍﺯ ﺣﻀﺮﺕ ﺷﯿﺦ ﻓﺮﯾﺪ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﻋﻄﺎﺭ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠّﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺗﺬﮐﺮﺓ




ﺧﻮﺍﺟﮧ ﺣﺴﻦ ﺑﺼﺮﯼ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠّﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ۔۔۔

ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺣﯿﺮﺕ ﺯﺩﮦ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ -

ﺍﻭﻝ ( ﻣﺨﻨﺚ ) ﯾﻌﻨﯽ ﮨﯿﺠﮍﺍ

ﺩﻭﻡ ﻣﺴﺖ ﺷﺨﺺ

ﺳﻮﻡ ﻟﮍﮐﺎ

ﭼﮩﺎﺭﻡ ﻋﻮﺭﺕ

ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﺐ ﻭﺟﮧ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯽ ﺗﻮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺍﯾﮏ ﮨﯿﺠﮍﮮ ﺳﮯ ﮔﺮﯾﺰ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺣﺎﻟﺖ ﮐﺎ ﺍﺏ ﺗﮏ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻋﻠﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﭖ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮔﺮﯾﺰﺍﮞ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ ﻭﯾﺴﮯ ﻋﺎﻗﺒﺖ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﺧﺪﺍ
ﮐﻮ ﮨﮯ -

ﭘﮭﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﻣﺴﺘﯽ ﮐﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﭽﮍ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﻟﮍﮐﮭﮍﺍﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﮐﺮ ﻗﺪﻡ ﺭﮐﮭﻮ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﺮ ﻧﮧ ﭘﮍﻧﺎ -

ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺪﻡ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﮔﺮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺗﻨﮩﺎ ﮔﺮﻭﻧﮕﺎ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮨﻤﺮﺍﮦ ﭘﻮﺭﯼ ﻗﻮﻡ ﮔﺮﮮ ﮔﯽ -

ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻗﻮﻝ ﺳﮯ ﺁﺝ ﺗﮏ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮﮞ -

ﭘﮭﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﺎ ﭼﺮﺍﻍ ﻟﯿﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭼﻞ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ ؟

ﺍﺱ ﻧﮯ ﭼﺮﺍﻍ ﮔﻞ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﯾﮧ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﮐﮧ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﮩﺎﮞ ﻣﻌﺪﻭﻡ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﻭﻧﮕﺎ ﮐﮧ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺁﺋﯽ -

ﭘﮭﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺍﯾﮏ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﻋﻮﺭﺕ ﻣﻨﮧ ﮐﮭﻮﻟﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻧﻨﮕﮯ ﺳﺮ ﻏﺼﮯ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺎ ﺷﮑﻮﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﯽ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻨﮧ ﺗﻮ ﮈﮬﺎﻧﭗ ﻟﻮ -

ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﮯ ﻋﺸﻖ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﻋﻘﻞ ﮐﮭﻮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﺁﮔﺎﮦ ﻧﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﮨﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﺎ -

ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﻋﺠﯿﺐ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻋﺸﻖِ ﺍﻟٰﮩﯽ ﮐﺎ دعویٰ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺁﭖ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻮﺵ ﻭ ﺣﻮﺍﺱ ﭘﺮ ﻗﺎﺋﻢ ﮨﯿﮟ -



لباس وصل یاراں

سید عبد القادر جیلانی رحمته الله علیه کا مزاج انتہائی نفیس تھا . صفائی اور خوشبو کا خاص اهتمام فرماتے . لباس کا کپڑا اکثر نہایت قیمتی هوتا . بغداد کے مشہور تاجر شیخ ابو الفضل کا بیان هے
ایک بار آپ رحمته الله علیه کا خادم میرے پاس آیا اور ایسا کپڑا طلب کیا جس کے صرف ایک گز کی قیمت هی ایک اشرفی کے برابر هو .
میں نے خادم کے جانے کے بعد سوچا
جب درویش اتنا قیمتی لباس پہنیں گے تو پھر خلیفہ وقت کیا پہنے گا ؟
پھر ایک دن میں آپ رحمته الله علیه کے درس میں شرکت کیلئے گیا .
درس کے اختتام پر آپ رحمته الله علیه میری طرف متوجہ هوئے اور فرمایا ،
ابو الفضل ! خدا کی عزت و جلال کی قسم !
جب تک میرا معبود حکم نہیں دیتا ، میں کوئی قیمتی کپڑا نہیں پہنتا .
اس لباس کے متعلق بھی مجھے حکم ملا تھا کۂ تجھے میرے حق کی قسم ! ایک ایسا لباس بھی پہن جس کے ایک گز کی قیمت ایک اشرفی کے برابر هو .
یه سنکر میں لرز اٹها اور اپنی سوچ کی معافی مانگی . آپ رحمته الله علیه نے فرمایا ،
جسے تم قیمتی لباس سمجھتے هو یه میت کا کفن هے . جب کوئی درویش عالم سلوک میں هزار بار مر چکتا 
هے تو اسے ایک کفن عطا هوتا هے 


دو تصویریں


               

کہا جاتا ہے کہ شیخ با یزید بسطامی کے پڑوس میں ایک یہودی رہتا تھا ، جب شیخ بایزید بسطامی کا انتقال ہو گیا تو اس سے پوچھ گیا کہ تم اسلام کیوں نہیں قبول کر لیتے، یہودی نے کہا میں اسلام کیسے قبول کروں ، اگر اسلام وہ مذھب ہے جو شیخ بایزید بسطامی کا مذھب تھا تو وہ میرے بس میں نہیں ہے،

اور اگر اسلام وہ مذھب ہے جو میں عام مسلمانوں میں دیکھتا ہوں تو تو مجھے ایسے اسلام سے شرم آتی ہے -

ایک غیر مسلم شخص شیخ بسطامی جیسے بزرگوں میں جو مذھب دیکھتا ہے وہ کیا ہے ، وہ یہ ہے کہ انسان دنیا سے کت کر گوشہ میں معتکف ہو جاۓ ، وہ مغرب کے وضو سے فجر کی نماز پڑھے ، وہ روزانہ کی کی بار قران ختم کرے،
وہ سال بھر روزے رکھے ، وہ حج کرنے جاۓ تو ہر قدم پر دو رکعت نفل پڑھے ، وہ ذکر کے کچھ الفاظ یاد کرکے روزانہ کئی لاکھ بار اسکا ورد کرے وغیرہ -

دوسری طرف عوام کے اندر جو اسلام ہے وہ یہ ہے کہ آدمی اسلام کا نام لے اور عملا'' اپنی مرضی پر چلے، وہ خدا کو سجدہ کرے اور انسان کے سامنے اکڑ دکھاۓ، وہ قران کو بطور تلاوت پڑھے اور اپنی زندگی کو اسکے احکامات سے آزاد رکھے ، وہ اسلام کے دین کامل ہونے پر فخر کرے مگر اپنی حقیقی زندگی میں جزئی اسلام پر بھی قائم نہ ہو،

وہ کریڈٹ ملنے والے مقام پر اسلام کا جھندہ اٹھاۓ اور جہاں بظاہر کریڈٹ نہ مل رہا ہو وہاں اسلام سے بے تعلّق ہو جاۓ ، وہ قومی دین کو اپنا دین بناۓ اور اسکے اوپر خدا کے دین کا لیبل لگا دے -

اسلام ایک سادہ اور فطری دین ہے ، وہ انسانی فطرت کے لئے اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتا ہے ، اور اپنی اس فطری کشش کی وجہ سے دور اول میں اسلام زمین کے بڑے حصے پر پھیل گیا ،

مگر بعد کے دور میں اسلام کی خود ساختہ شکلیں بن گئیں ، اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام نے لوگوں کی نظرمیں اپنی کشش کھودی -

اسلام ایک محفوظ دین ہے ، باعتبار حقیقت وہ آج بھی اپنے اندر مکمل کشش رکھتا ہے ، اگر اسلام کی حقیقی تصویر سے تمام مصنوعی پردے ہٹا دئیےجائیں تو اسلام اپنے آپ ساری دنیا میں پھیل جائیگا -





نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا




ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے تین چیزیں محبوب ہیں
1۔ خوشبو
2۔ نیک عورت
3۔ نماز ( میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہہ نے عرض کیا کہ مجھے بھی تین چیزیں پسند ہیں
1۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ دیکھنا
2۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنا مال خرچ کرنا
3۔ میری بیٹی کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں ہونا

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہہ نے عرض کیا کہ مجھے بھی تین چیزیں پسند ہیں
1۔ نیکی کا حکم کرنا
2۔ برائی سے منع کرنا
3۔ پرانا کپڑا پہننا

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہہ نے عرض کیا کہ مجھے بھی تین چیزیں پسند ہیں
1۔بھوکوں کو کھانا کھلانا
2۔ ننگوں کو کپڑا پہنانا
3۔ قرآن پاک کی تلاوت کرنا

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہہ نے عرض کیا کہ مجھے بھی تین چیزیں پسند ہیں
1۔ مہمان کی خدمت کرنا
2۔ گرمی کا روزہ رکھنا
3۔ دشمن کے لیے تلوار اٹھانا

حضرت جبرائیل علیہ السلام حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا کہ اگر میں دنیا میں ہوتا تو مجھے بھی تین چیزیں پسند ہوتی
1۔ بھولے ہوؤں کو راستہ دکھلانا
2۔ غریب عبادت گذار سے محبت رکھنا
3۔ مفلس عیال دار کی مدد کرنا

اور عرض کیا کہ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ مجھے بھی اپنے بندوں کی تین چیزیں پسند ہیں
1۔ میرے لیے جان یا مال کا لگانا
2۔ گناہ پر ندامت میں رونا
3۔ فاقہ پر صبر کرنا

(منتخب موتی جلد نمبر 6 حصہ دوم صفحہ نمبر 42)

گفتگو درد کی


گفتگو درد کی عالم کی زباں ٹھہرے گی
داستاں عشق کی مقتل کا بیاں ٹھہرے گی
شاہِ ست رنگ نے اک حشر سجایا ہے نیا
بندگی دہر کی اب حکم رواں ٹھہرے گی
شیخ و واعظ کا بیاں، فلسفہ ء عشقِ بتاں
ساحری دیر و کلیسا کی اذاں ٹھہرے گی
بے حجاب آج چلی لیلیٰ سوئے دشt جنوں
پارسائی کسی مجنوں کی کہاں ٹھہرے گی
جسم خوابوں کے بیاباں میں بھٹکتا ہو گا
روح قندیلِِ محبت کا دھواں ٹھہرے گی
موم کا جسم کڑی دھوپ سہے گا کب تک
زلفِ جاناں کی گھٹا راحتِ جاں ٹھہرے گی
بوسہ دینے کو گلاب آئیں گے صحراؤں میں
آبلہ پائی کسے دل پہ گراں ٹھہرے گی

درد خاموش ہے درویش سمندر کی طرح
خامشی بن کے جنوں حشر فشاں ٹھہرے گی

مسیحا هوں

تبهی تو .....درد کی ٹیسوں کو میں پہچان لیتا هوں...
تبهی... لفظوں و لہجوں کی ، میں گہرائی سے واقف هوں...
میں ..... ہر اک لفظ کے سینے کی دهڑکن سن بهی سکتا هوں...
اور .....بے ترتیب سانسوں کی کہانی جان لیتا هوں...
میں نبضوں کی سبهی قسموں کو بهی پہچان لیتا هوں
میں نشتر کی مدد سے، روگ کے ناسور، سارے کاٹ دیتا هوں...
میں ہر اک درد کے درماں کا ادراک رکهتا هوں.........
مگر........
میں عیسى کی طرح یوں درد کی سولی پہ لٹکا هوں.. 
میری تجسیم نے ، زخموں کی مالا پہن رکهی هے ...
دکهوں سے نیم جاں هوں میں ،تهکن محسوس کرتا هوں.....
اتارو دار سے مجهکو ،میرے زخموں کو سہلاو...
مجهے بهی کوئی مرهم دو...مجهے کوئی دلاسہ دو..
..........مجهے کوئی مسیحا دو.....
جو مجهه مٹی کے پتلے میں ، نئی اک روح کو پهونکے..
مجهے بهی بال و پر دے کر، فلک تک کی رسائی دے...
مجهے کار- ے- شفا دے دے...........................
مجهے عیسی سے ملوا دو.................. 
مجهے خلق ے خدا کے واسطے .........
دست -ے شفا لے دو..................!!!

مسیحا هوں............................
تبهی تو .....درد کی ٹیسوں کو میں پہچان لیتا هوں...
تبهی... لفظوں و لہجوں کی ، میں گہرائی سے واقف هوں...
میں ..... ہر اک لفظ کے سینے کی دهڑکن سن بهی سکتا هوں...
اور .....بے ترتیب سانسوں کی کہانی جان لیتا هوں...
میں نبضوں کی سبهی قسموں کو بهی پہچان لیتا هوں
میں نشتر کی مدد سے، روگ کے ناسور، سارے کاٹ دیتا هوں...
میں ہر اک درد کے درماں کا ادراک رکهتا هوں.........
مگر........
میں عیسى کی طرح یوں درد کی سولی پہ لٹکا هوں.. 
میری تجسیم نے ، زخموں کی مالا پہن رکهی هے ...
دکهوں سے نیم جاں هوں میں ،تهکن محسوس کرتا هوں.....
اتارو دار سے مجهکو ،میرے زخموں کو سہلاو...
مجهے بهی کوئی مرهم دو...مجهے کوئی دلاسہ دو..
..........مجهے کوئی مسیحا دو.....
جو مجهه مٹی کے پتلے میں ، نئی اک روح کو پهونکے..
مجهے بهی بال و پر دے کر، فلک تک کی رسائی دے...
مجهے کار- ے- شفا دے دے...........................
مجهے عیسی سے ملوا دو.................. 
مجهے خلق ے خدا کے واسطے .........
دست -ے شفا لے دو..................!!!

مسیحا هوں............................

سب خاک تھا

سب خاک تھا
اک "ع" تھی پھر "ش" تھا
کچھ آگ تھی کچھ راکھ تھی
اک دشت تھا
اک بحر تھا
صحرا بھی تھا اور پیاس تھی
پھر اک خلا بے انت سا
اک بند گلی سا راستہ
ویرانیاں, تنہائیاں
پھر "ق"تھا
پھر سارا منظر راکھ تھا
سب خاک تھا



ﺍﺱ ﻧﮯ ﭼﺮﺍﻍ ﮔﻞ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﯾﮧ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﮐﮧ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﮩﺎﮞ ﻣﻌﺪﻭﻡ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﻭﻧﮕﺎ ﮐﮧ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺁﺋﯽ -

ﭘﮭﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺍﯾﮏ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﻋﻮﺭﺕ ﻣﻨﮧ ﮐﮭﻮﻟﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻧﻨﮕﮯ ﺳﺮ ﻏﺼﮯ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺎ ﺷﮑﻮﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﯽ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻨﮧ ﺗﻮ ﮈﮬﺎﻧﭗ ﻟﻮ -

ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﮯ ﻋﺸﻖ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﻋﻘﻞ ﮐﮭﻮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﺁﮔﺎﮦ ﻧﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﮨﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﺎ -

ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﻋﺠﯿﺐ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻋﺸﻖِ ﺍﻟٰﮩﯽ ﮐﺎ دعویٰ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺁﭖ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻮﺵ ﻭ ﺣﻮﺍﺱ ﭘﺮ ﻗﺎﺋﻢ ﮨﯿﮟ -

ﺍﺯ ﺣﻀﺮﺕ ﺷﯿﺦ ﻓﺮﯾﺪ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﻋﻄﺎﺭ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠّﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺗﺬﮐﺮﺓ 




ﺧﻮﺍﺟﮧ ﺣﺴﻦ ﺑﺼﺮﯼ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠّﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ۔۔۔ 

ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺣﯿﺮﺕ ﺯﺩﮦ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ -

ﺍﻭﻝ ( ﻣﺨﻨﺚ ) ﯾﻌﻨﯽ ﮨﯿﺠﮍﺍ

ﺩﻭﻡ ﻣﺴﺖ ﺷﺨﺺ 

ﺳﻮﻡ ﻟﮍﮐﺎ 

ﭼﮩﺎﺭﻡ ﻋﻮﺭﺕ 

ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﺐ ﻭﺟﮧ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯽ ﺗﻮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺍﯾﮏ ﮨﯿﺠﮍﮮ ﺳﮯ ﮔﺮﯾﺰ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺣﺎﻟﺖ ﮐﺎ ﺍﺏ ﺗﮏ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻋﻠﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﭖ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮔﺮﯾﺰﺍﮞ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ ﻭﯾﺴﮯ ﻋﺎﻗﺒﺖ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﺧﺪﺍ
ﮐﻮ ﮨﮯ -

ﭘﮭﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﻣﺴﺘﯽ ﮐﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﭽﮍ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﻟﮍﮐﮭﮍﺍﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﮐﺮ ﻗﺪﻡ ﺭﮐﮭﻮ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﺮ ﻧﮧ ﭘﮍﻧﺎ -

ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺪﻡ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﮔﺮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺗﻨﮩﺎ ﮔﺮﻭﻧﮕﺎ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮨﻤﺮﺍﮦ ﭘﻮﺭﯼ ﻗﻮﻡ ﮔﺮﮮ ﮔﯽ -

ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻗﻮﻝ ﺳﮯ ﺁﺝ ﺗﮏ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮﮞ -

ﭘﮭﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﺎ ﭼﺮﺍﻍ ﻟﯿﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭼﻞ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ ؟




سید عبد القادر جیلانی رحمته الله علیه کا مزاج انتہائی نفیس تھا . صفائی اور خوشبو کا خاص اهتمام فرماتے . لباس کا کپڑا اکثر نہایت قیمتی هوتا . بغداد کے مشہور تاجر شیخ ابو الفضل کا بیان هے
ایک بار آپ رحمته الله علیه کا خادم میرے پاس آیا اور ایسا کپڑا طلب کیا جس کے صرف ایک گز کی قیمت هی ایک اشرفی کے برابر هو .
میں نے خادم کے جانے کے بعد سوچا
جب درویش اتنا قیمتی لباس پہنیں گے تو پھر خلیفہ وقت کیا پہنے گا ؟
پھر ایک دن میں آپ رحمته الله علیه کے درس میں شرکت کیلئے گیا .
درس کے اختتام پر آپ رحمته الله علیه میری طرف متوجہ هوئے اور فرمایا ،
ابو الفضل ! خدا کی عزت و جلال کی قسم !
جب تک میرا معبود حکم نہیں دیتا ، میں کوئی قیمتی کپڑا نہیں پہنتا .
اس لباس کے متعلق بھی مجھے حکم ملا تھا کۂ تجھے میرے حق کی قسم ! ایک ایسا لباس بھی پہن جس کے ایک گز کی قیمت ایک اشرفی کے برابر هو .
یه سنکر میں لرز اٹها اور اپنی سوچ کی معافی مانگی . آپ رحمته الله علیه نے فرمایا ،
جسے تم قیمتی لباس سمجھتے هو یه میت کا کفن هے . جب کوئی درویش عالم سلوک میں هزار بار مر چکتا هے تو اسے ایک کفن عطا هوتا هے .