ہم ذات میں خود کو مدفن کر کے اکثر تاج محل کی ان غلام گردشوں میں شوریدہ شوریدہ گھومتے ہیں، جہاں کبھی نور النساء اور پھر کئی داستان عشاق وصل، پرندوں کی بیٹ کے تلے گم ہو جاتی ہیں- جیسے کوئی ذندہ عشق سیمنٹ گارے کے چوکور بلاکس کے پیچھے ذندہ چنوا دیا جاتا ہے اور نام لگتا ہے ذات پات، اونچ نیچ کا----------چلو وہ زمانہ تو ابتدائے اسلام کا تھا،مروجہ افلاسی اومر کا تھا؛ مگر آج کیوں کسی کی دھانی چنریا کو، ہرن آنکھوں کو،سرسراتی مدھوش سانسوں کو پابنس سلاسل کر دیا جاتا ہے، جبکہ ہمارا تو منشور بھی اسلامی، آفاقی گفتار بھی مذہبی اور ایمان کے علمبردار بھی ہم؛ تو کیوں رشتوں پہ لید مل دی جاتی ذات پات کی اور افکار مسلماناں ہوتے ہوئے کیوں چن دیا جاتا خوابوں کو ذندان میں بے وجہ-------آخر کب جاگے گا انسان، کیا ہم زمانہ جہل کی طرف پھر چل پڑے ہیں؟،کیا پھر کسی "نور" کے پرتو کا گمان ہے ہمیں؟---- جاگ انسان جاگ کہ یہی وقت ماحاصل ہے مسلمان ہونے کے فن عشق میں
ہر کوئی اپنے زمانے کو برا اور گزرے زمانے کی رام لیلا جبتا ہے۔سر دھنتا رہتا ہے، مگر اس سمےاچھت ریکھایئں کیا پرہوت کرتی رھیں اس سے ناواقف رہتا یے۔ صرف اس پر کیا موقف، ھم نے جو سوچ کی خوردبین خود پر ڈالی تو فقط زمین پر ماتھے کو رگڑتے پایا - جن باتوں کی وعدہ الست میں لبیک کہی وہی سوچ 1400 سال میں بھلا بیٹھے، جب ابتدائے آفرینش سے سب چیزیں مقررتھیں، تو پھر رنگولی کی پچکاریاں کیوں مار رہا ہے"وہ"، ،یہی سوچ کے ساتھ ادھر حاضر ہوں آخر اس صدی کی اہمیت اور ھمارا مقصد کیاہے؟
جستجو ہو تو سفر ختم کہاں ہوتا ہے یوں تو ہر موڑ پہ منزل کا گمان ہوتا ہے.مگرھم عجیب عجیب قسم کے خود ساختہ دائروں میں خود کو قید کئے ھوئے پھرتے ھیں.
جواب دیںحذف کریں