تا نزع قاصد اس کی لے کر خبر نہ آیا
پیغامِ مرگ آیا پر نامہ بر نہ آیا
گردش نصیب ہوں میں اس چشمِ پُر فسوں کا
دورِ فلک بھی جس کے فتنے سے بر نہ آیا
دیوانۂ پری کو کب اُنس، اِنس سے ہوجو
اُس کے در پر بیٹھا پھر اپنے گھر نہ آیا
خوبانِ جور پیشہ گزرے بہت ولیکن
تجھ سا کوئی جہاں میں بیداد گر نہ آیا
دیوار سے پٹک کر سر مر گئے ہزار
وںپر تُو وہ سنگ دل ہے بیرونِ در نہ ایا
غمازیوں نے ڈالے آپس میں تفرقے
یہبرسوں ہوئے کہ واں کا کوئی اِدھر نہ آیا
کس کس اذیتوں سے مارا نوا ؔ کو تو نے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں