کہتے ہیں کہ عارف کی محبت کا انداز جداگانہ ہوتا ہے؛ ماننے کی بات بھی ہے۔ یہ بھی پڑتے آئے کہ حضرت علی (رض) علم
کی شہر کا دروازہ ہیں اور شہر علم حضور پاک (ﷺ) ہیں- شروع میں سمجھ نہ آئی بات مگر وقت کے چرخہ نے بتلایہ کہ ، علم لدھنی وہ علم ہے جو نبوت کے بعد دوام کا حامل ہے۔
اور عشق حقیقی کی میراث کن یہی علم ہے- یہ علم عطا ھوتا ہے، اسکے حصول کی طلب بھی شرک کا مقام رکھتی ہے۔ یہاں حب اور محبوب کی راز و نیاز کی گفتگو آسمانوں پر بھی حجابات سے چھپی ہوتیں- مگر کوئی کبی یہ خیال نہیں کرتا کہ آخر حضرت علی (رض) ہی کو اس مہ الست کا رہوراں کیوں مقرر کیا گیا؟۔
بھائی! گر راہ سلوک کی منزل کا مسافر بننا ہے تو \"دم اندر دم باہر\" موتو قبل انتموتو کی پہچان حاصل کرنے کیلیے عشق حیدری(رض) کا حصول ضروری ہے ورنہ ڈبہ پیر تو ہر گلی کے نکڑ پر مل ہی جائیں گے مقام فنائیت کا ظہور عطا نہیں ھو گا نہ ہی کوئی رہبر نصیب ہوگا۔ ساری عمر سمرخ کی طرح چکریوں میں پڑا رھنا نصیبہ بن جانا ہے۔
بغیر کسی سمت کے تعیین کیے دوڑے چلے جانا صرف کوشش کا زیا ہے سمجھا جاتا ہے کہ ذات کچھ حاصل کر لے گی مگر گزرتے وقت کے ساتھ ہماری ذات بھی خرچ ہو چکی ھوتی ہیں
جواب دیںحذف کریںاچھا جی
جواب دیںحذف کریں