حضر ت عمر رضی اﷲ عنہ خلیفہ بننے سے پہلے تجارت کیا کرتے تھے۔جب
خلیفہ بنائے گئے تو بیت المال سے وظیفہ مقرر ہوا۔ مدینہ منورہ میں لوگوں کو جمع
فرما کر ارشاد فرمایا کہ میں تجارت کیا کرتا تھا۔ اب تم لوگوں نے اس میں مشغول
کردی۔ اس لئے اب گذارہ کی کیا صورت ہو؟ تو لوگوں نے مختلف مقداریں تجویز کیں۔حضرت
علی کرم اﷲ وجہہ چپ بیٹھے تھے۔حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے دریافت فرمایا کہ تمہاری کیا
رائے ہے۔آپ نے فرمایا کہ توسط کے ساتھ جو تمہیں اور تمہارے گھروالوں کا کافی ہو
جائے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اس رائے کو پسند فرمایا اور قبول کر لیا اورمتوسط
مقدار تجویز ہوگئی ۔اس کے بعد ایک مرتبہ ایک مجلس میں جس میں خود حضرت علی رضی اﷲ
عنہ بھی تھے اورحضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ ، حضرت زیبر رضی اﷲ عنہ ، حضرت طلحہ رضی
اﷲ عنہ شریک تھے یہ ذکر آیا۔ حضر ت عمر رضی اﷲ عنہ کے وظیفہ میں اضافہ کرنا چاہیے کہ
گذر میں تنگی ہوتی ہے۔ مگر ان سے عرض کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اسلئے ان کی صاحبزادی
حضر ت حفصہ رضی اللہ عنہا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہونے کی وجہ امّ
المومنین بھی تھی ان کی خدمت میں یہ حضرات تشریف لے گئے اور ان کے ذریعہ سے حضرت
عمر رضی اﷲ عنہ کی اجازت اور رائے معلوم کرنے کی کوشش کی اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ
دیا کہ ہم لوگوں کے نام معلوم نہ ہوں۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے جب حضرت عمر رضی
اﷲ عنہ سے اس کا تذکرہ کیا تو چہرہ پر غصہ کے آثار ظاہر ہوئے ۔ حضرت عمر رضی اﷲ
عنہ نے نام دریافت کیے۔حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے عر ض کیا کہ پہلے آپ کی رائے
معلوم ہوجائے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ مجھے ان کے نام معلوم ہوجاتے تو
ان کے چہرے بدل دیتا۔ یعنی ایسی سزائیں دیتا کہ منہ پر نشان پڑجاتے۔ تو ہی بتا کہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عمدہ سے عمدہ لباس تیرے گھر میں کیا تھا۔ انہوں نے عرض
کیا کہ دو کپڑے گیروی رنگ کے جن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن یا کسی وفد
کی وجہ سے پہنتے تھے ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کون سا کھانا تیرے
یہاں عمدہ سے عمدہ کھایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ ہمارا کھانا جو کی روٹی تھی ۔ہم نے
گرم گرم روٹی پر گھی کے ڈبہ کی تلچھٹ الٹ کر اس کو ایک مرتبہ چپڑدیا تو حضور صلی
اللہ علیہ وسلم خود بھی اس کو مزے لے کر نوش فرماتے تھے اور دوسروں کو بھی کھلاتے
تھے۔ فرمایا کونسا بسترہ عمدہ ہوتا تھا جو تیرے یہاں بچھاتے تھے ۔عرض کیا ایک موٹا
سا کپڑا تھا گرمی میں اس کو چوہرا کر کے بچھا لیتے تھے اور سردی میں آدھے کو
بچھالیتے اورآدھے کو اوڑھ لیتے۔فرمایا حفصہ ان لوگوں تک یہ بات پہنچا دے کہ حضور
صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے طرز عمل سے ایک اندازہ مقرر فرمادیا۔ اورامید (آخرت)
پر کفایت فرمائی۔ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کروں گا۔ میری مثال اور
میرے دو ساتھی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی
مثال ان تین شخصوں کی سی ہے جو ایک راستہ پر چلے ۔پہلا شخص ایک توشہ لے کر چلا
اورمقصد کو پہنچ گیا ۔دوسرے نے بھی پہلے کا اتباع کیا اور اسی کے طریقہ پرچلا وہ
بھی پہلے کے پاس پہنچ گیا۔پھرتیسرا شخص نے چلنا شروع کیا اگر وہ ان دونوں کے طریقہ
پر چلے گا تو ان کے ساتھ مل جائے گا اور اگران کے طریقہ کے خلاف چلے گا تو کبھی
بھی ان کے ساتھ نہیں ملے سکے گا
ہر کوئی اپنے زمانے کو برا اور گزرے زمانے کی رام لیلا جبتا ہے۔سر دھنتا رہتا ہے، مگر اس سمےاچھت ریکھایئں کیا پرہوت کرتی رھیں اس سے ناواقف رہتا یے۔ صرف اس پر کیا موقف، ھم نے جو سوچ کی خوردبین خود پر ڈالی تو فقط زمین پر ماتھے کو رگڑتے پایا - جن باتوں کی وعدہ الست میں لبیک کہی وہی سوچ 1400 سال میں بھلا بیٹھے، جب ابتدائے آفرینش سے سب چیزیں مقررتھیں، تو پھر رنگولی کی پچکاریاں کیوں مار رہا ہے"وہ"، ،یہی سوچ کے ساتھ ادھر حاضر ہوں آخر اس صدی کی اہمیت اور ھمارا مقصد کیاہے؟
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں