زار کے صفحے

جمعرات، 11 ستمبر، 2014

assalam u alakum, I am back, so in few days time new written material would be here. regards

بدھ، 9 جولائی، 2014

داستان عشاق وصل

ہم ذات میں خود کو مدفن کر کے اکثر تاج محل کی ان غلام گردشوں میں شوریدہ شوریدہ گھومتے ہیں، جہاں کبھی نور النساء اور پھر کئی داستان عشاق وصل، پرندوں کی بیٹ کے تلے گم ہو جاتی ہیں- جیسے کوئی ذندہ عشق سیمنٹ گارے کے چوکور بلاکس کے پیچھے ذندہ چنوا دیا جاتا ہے اور نام لگتا ہے ذات پات، اونچ نیچ کا----------چلو وہ زمانہ تو ابتدائے اسلام کا تھا،مروجہ افلاسی اومر کا تھا؛ مگر آج کیوں کسی کی دھانی چنریا کو، ہرن آنکھوں کو،سرسراتی مدھوش سانسوں کو پابنس سلاسل کر دیا جاتا ہے، جبکہ ہمارا تو منشور بھی اسلامی، آفاقی گفتار بھی مذہبی اور ایمان کے علمبردار بھی ہم؛ تو کیوں رشتوں پہ لید مل دی جاتی ذات پات کی اور افکار مسلماناں ہوتے ہوئے کیوں چن دیا جاتا خوابوں کو ذندان میں بے وجہ-------آخر کب جاگے گا انسان، کیا ہم زمانہ جہل کی طرف پھر چل پڑے  ہیں؟،کیا پھر کسی "نور" کے پرتو کا گمان ہے ہمیں؟---- جاگ انسان جاگ کہ یہی وقت ماحاصل ہے مسلمان ہونے کے فن عشق میں


فرض کیجیے


فرض کیجیے کہ آج رات آپ کو اپنی بیگم کے ساتھ کسی شادی میں جانا ہے۔ آپ دونوں بینک جاتے ہیں اور بیگم کے پہننے کے لیے ساری جیولری نکلوا کر گھر لے آتے ہیں۔ راستے بھر میں آپ کسی چور راہزن سے ڈرتے رہتے ہیں ۔ یہی حال شادی میں جاتے اور آتے وقت رہتا ہے مگر کچھ نہیں ہوتا۔ آپ دونوں اطمینان اور بے فکری سے سوجاتے ہیں ۔ صبح اٹھنے پر پتہ چلتا ہے کہ چور رات میں اور خاموشی سے آپ کے گھر سے سارا زیور چرا کر لے گئے ہیں۔ آپ تھانے کے چکر لگاتے ہیں ۔ پولیس کی منت کرتے ہیں کہ آپ کا کل سرمایہ لٹ چکا ہے، مگر بے سود۔
فرض کیجیے آپ ایک نوجوان بچے کے باپ ہیں جس سے آپ کو بڑ ی امیدیں وابستہ ہیں ۔ وہ روز کالج جاتا ہے۔ محنت سے پڑھتا ہے۔ آپ خوش اورمطمئن رہتے ہیں۔ ایک روز آپ کو پتہ چلتا ہے کہ کالج سے واپسی پر اسے ایک بس نے ٹکر ماردی۔ آپ کے پیروں تلے سے زمین نکل جاتی ہے۔ آپ دیوانہ وار دفتر سے ہسپتال بھاگتے ہیں ۔ پھٹی آنکھوں سے اپنی بیوی کو دیکھتے ہیں جو آپریشن تھیٹر کے باہر بیٹھی بلک بلک کر رورہی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر آپ کو آ کر بتاتا ہے کہ ہم کوشش کر رہے ہیں ۔ آپ ڈاکٹر کے سامنے ہاتھ جوڑ دیتے ہیں کہ میرے بچے کو بچالیجیے ۔
فرض کیجیے کہ چند دن سے آپ کی طبعیت کچھ خراب ہے ۔ مگر ایسی نہیں کہ چھٹی لے کر گھر بیٹھ جائیں ۔ مگر آپ مکمل نارمل بھی نہیں ۔آپ اپنے مسائل لے کر فیملی ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں ۔ وہ کچھ دوائیں دیتا ہے ۔ کچھ ٹیسٹ لکھتا ہے ۔ آپ دوا کھاتے ہیں ۔ فائدہ ہوجاتا ہے ۔ مگر احتیاطاً آپ ٹیسٹ بھی کرالیتے ہیں ۔ ٹیسٹ کی رپورٹ آنے پر آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو کینسر کا جان لیوا مرض لاحق ہے ۔آپ کے گھر میں کہرام مچ جاتا ہے ۔ پھر علاج شروع ہوتا ہے ۔ لاکھوں روپے برباد کر کے اور بے پناہ تکلیف اٹھا کر بھی آپ ہسپتال کے بستر پر پڑے موت کی آہٹ سننے پر مجبور ہیں۔آپ کے بچے تڑپ رہے ہیں ۔ بیوی کے چہرے پر تاریکی چھائی ہوئی ہے ۔ آپ کی دنیا بھی اندھیر ہو چکی ہے ۔
اطمینان رکھیے ۔ ہم صرف فرض کر رہے ہیں ۔ ابھی تک ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
آپ نے جیولری باحفاظت بینک لاکز میں رکھوادی۔ آپ کا بچہ روز پڑھنے جاتا ہے اور خیر سے آ جاتا ہے ۔ آپ کی طبیعت گرچہ ناساز ہوئی مگر معمولی سامسئلہ تھا جو دوا سے حل ہو گیا۔ اس دنیا میں اس جیسی ہزار چیزیں فرض کی جا سکتی ہے ۔ مگر ان میں سے کچھ بھی نہیں ہوتا ۔آپ کو کسی کی منت نہیں کرنی پڑتی۔ کسی کے آگے گڑگڑانا نہیں پڑتا۔آپ کی بیوی بلک بلک کر نہیں روتی۔ آپ کے بچے تڑپتے نہیں ۔ آپ کا مال محفوظ ہے ۔ عزت کو بٹہ نہیں لگا۔ جان عافیت میں ہے ۔
چلیے دو لمحے کے لیے ایک دفعہ پھر فرض کر لیجیے کہ یہ سب کچھ ہو چکا ہے ۔ آپ کا مال لٹ گیا ہے ۔ آپ کی جوان بیٹی کی آبرو پر حرف آ گیا ہے ۔ آپ کا بچہ آپریشن تھیٹرمیں ہے ۔ آپ خود ہسپتال میں پڑے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کا انتظار کر رہے ہیں ۔ کرب کے ان لمحوں کا تصور کیجیے ۔سوچیے کہ آپ کو کہاں کہاں بھاگنا اور کن کن لوگوں کے آگے گڑگڑانا پڑ رہا ہے ۔
اور پھر اس ہستی کا تصور کیجیے جو عافیت کا قلعہ بن کر آپ کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے ۔ وہ آپ سے کچھ نہیں مانگ رہا۔ مگر آپ اس کے قدموں پر احسان مندی کے جذبے سے گرجائیے کہ اس نے آپ کے مال کو بچالیا۔ وہ اپنے احسانوں پر اپنی تعریف نہیں سننا چاہتا۔ مگر آپ بہتے ہوئی آنکھوں اور لزرتے ہوتے ہونٹوں سے اس کی تعریف کیجیے کہ آپ کی اولاد محفوظ ہے۔
وہ آپ کے ہر گناہ کو دیکھ کر بھی انجان بن رہا ہے اور عافیت ، نعمت اور زندگی نہیں چھین رہا۔ آپ بھی عزم کر لیں کہ اب کبھی اس کو ناراض نہیں کریں گے ۔ ابھی وقت ہے ۔ جس نے دوسرے کے سامنے جھکنے نہیں دیا۔ اس کے سامنے جھک جائیں ۔ جس نے دوسروں کے سامنے تڑ پنے سے بچالیا اس کے سامنے رولیں ۔ جس نے دوسرے کا احسان اٹھانے سے بچالیا اس کی بندگی اختیار کر لیں


آج مجھے معلوم ہوا


آج مجھے معلوم ہوا کہ ہم خود کی ذات میں کتنا گمنام سے ہیں، کبھی کبھی آئینہ بھی ہم سے پوچھ بیٹھتا ہے، ارے بابا تم کون ہو؟ اور تب ہمکو اپنے سراپے پہ ایک نظر ڈال لینی چاہئے، ہو سکتا ہے وہ ایک لمحہ خود کو بدلنے کا ہو حالات کے ساتھ

اگر تو ملتا تو کیسا ہوتا !


بہت مدت کے بعد کل جب
کتابِ ماضی کو میں نے کھولا
بہت سے چہرے نظر سے گزرے
بہت سے ناموں پہ دل پسیجا
اک ایسا صفحہ بھی اس میں آیا
لکھا ہوا تھا جو آنسوؤں سے
کہ جس کا عنوان "ہمسفر" تھا
کچھ اور آنسو پھر اس پہ ٹپکے
پھر اس سے آگے میں پڑھ نہ پایا
کتابِ ماضی کو بند کر کے
ترے خیالوں میں کھو گیا میں
اگر تو ملتا تو کیسا ہوتا !
انہی خیالوں میں سو گیا میں


کبھی کبھی مجھ سے میری مردانگی کا بھوت لڑتا ہے اور بہت لڑتا ہے-----جب جب میری نگاہ کسی ماں کی ممتا

طرف اٹھتی ہے

یہ کیسی کاپی هے..؟


" یہ کیسی کاپی هے..؟ " اس نے پوچھا..

" اس میں دعائیں لکھی هیں.. میرے کئی ایک دوستوں نے کہا تھا کہ خانہ کعبہ میں همارے لئے دعا مانگنا.. میں نے وه سب دعائیں اس کاپی میں لکھ لی تھیں.. "

" دھیان کرنا.. " وه بولے.. " یہاں جو دعا مانگی جائے وه قبول هو جاتی هے.. "

میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا..

بولے.. " اسلام آباد میں ایک ڈائریکٹر هیں.. عرصہ دراز هوا انہیں روز بخار هو جاتا تھا.. ڈاکٹر ' حکیم ' وید ' هومیو سب کا علاج کر دیکھا.. کچھ افاقہ نہ هوا.. سوکھ کر کانٹا هو گئے..
آخر چارپائی پر ڈال کر کسی درگاہ پر لے گئے.. وہاں ایک مست سے کہا.. بابا دعا کر کہ انہیں بخار نہ چڑھے..
انہیں آج تک پھر بخار نہیں چڑھا..

اب چند سال سے گردن کے پٹھے اکڑے هوئے هیں.. وه اپنی گردن ادھر ادھر هلا نہیں سکتے.. ڈاکٹر کہتے هیں یہ مرض صرف اس صورت میں دور هو سکتا هے کہ انھیں بخار چڑھے.. انھیں دھڑا دھڑ بخار چڑھنے کی دوائیاں کھلائی جا رھی هیں.. مگر انھیں بخار نہیں چڑھتا.. "

دعاؤں کی کاپی میرے هاتھ سے چھوٹ کر گر پڑی.. میں نے اللہ کے گھر کی طرف دیکھا..

" میرے الله.. کیا کسی نے تیرا بھید پایا هے..؟؟؟ "

اقتباس لبیک از ممتاز مفتی



ﻣﻮﺋﮯ ﻣﺒﺎﺭﮎﺣﻀﻮﺭ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ


ﺳﻠﺴﻠﮧ " ﺣﺴﻦ ﻣﺼﻄﻔﮯ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ"ﻣﻮﺋﮯ ﻣﺒﺎﺭﮎﺣﻀﻮﺭ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺳﺮِﺍﻧﻮﺭ ﭘﺮ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺑﺎﻝ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺣﺴﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﺫﺏ ﻧﻈﺮ ﺗﮭﮯ،ﺟﯿﺴﮯ ﺭﯾﺸﻢ ﮐﮯ ﺳﯿﺎﮦ ﮔﭽﮭﮯ، ﻧﮧ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺳﯿﺪﮬﮯﺍﻭﺭﻧﮧ ﭘﻮﺭﯼ ﻃﺮﺡ ﮔﮭﻨﮕﮭﺮﯾﺎﻟﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﻧﯿﻢ ﺧﻤﺪﺍﺭ ﺟﯿﺴﮯﮨﻼﻝِﻋﯿﺪ، ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍِﻋﺘﺪﺍﻝ، ﺗﻮﺍﺯُﻥ ﺍﻭﺭ ﺗﻨﺎﺳﺐ ﮐﺎﺣﺴﯿﻦ ﺍﻣﺘﺰﺍﺝ ﭘﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ﺍﻟﻠﮧ ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺰﺕ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺳﯿﺎﮦ ﺯﻟﻔﻮﮞ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍِﺭﺷﺎﺩﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :ﻭَ ﺍﻟﻠَّﻴْﻞِ ﺍِﺫَﺍ ﺳَﺠٰﯽ O’’ ( ﺍﮮ ﺣﺒﯿﺐِ ﻣﮑﺮﻡ !) ﻗﺴﻢ ﮨﮯ ﺳﯿﺎﮦ ﺭﺍﺕ ﮐﯽ( ﻃﺮﺡﺁﭖ ﮐﯽ ﺯﻟﻒِ ﻋﻨﺒﺮﯾﮟ ﮐﯽ ) ﺟﺐ ﻭﮦ (ﺁﭖ ﮐﮯ ﺭُﺥِ ﺯﯾﺒﺎﯾﺎﺷﺎﻧﻮﮞ ﭘﺮ ) ﭼﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔ ‘‘ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ، ﺍﻟﻀﺤٰﯽ، 93 : 2ﯾﮩﺎﮞ ﺗﺸﺒﯿﮧ ﮐﮯ ﭘﯿﺮﺍﺋﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﮔﯿﺴﻮﺋﮯ ﻋﻨﺒﺮﯾﮟ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﻗﺴﻢ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﮐﯿﺎﮔﯿﺎ ﺟﻮ ﺩﺭﺍﺻﻞ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢﮐﮯﺣﺴﻦ ﻭ ﺟﻤﺎﻝ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﮨﮯ۔ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﻣﺬﮐﻮﺭ ﮨﮯﮐﮧ ﺻﺤﺎﺑۂ ﮐﺮﺍﻡ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮭﻢ ﮐﻮ ﺣﻀﻮﺭ ﻋﻠﯿﮧﺍﻟﺴﻼﻡﺳﮯ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﻭﺍﻟﮩﺎﻧﮧ ﻣﺤﺒﺖ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮨﯿﮟﮨﻤﮧﻭﻗﺖ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﭼﮩﺮۂ ﺍﻧﻮﺭﮐﺎﻃﻮﺍﻑ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﺘﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢﮐﯽ ﺧﻤﺪﺍﺭ ﺯﻟﻔﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺳﯿﺮ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮐﺜﺮ ﺍﭘﻨﯽﻣﺤﻔﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺯﻟﻒِﻋﻨﺒﺮﯾﮟ ﮐﺎ ﺗﺬﮐﺮﮦ ﻭﺍﻟﮩﺎﻧﮧ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔1۔ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻧﺲ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﻣﺮﻭﯼ ﮨﮯ :ﮐﺎﻥ ﺷﻌﺮﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺭﺟﻼ، ﻻ ﺟﻌْﺪَ ﻭ ﻻﺳﺒﻂ .’’ﺭﺳﻮﻝِ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺯﻟﻔﯿﮟﻧﮧﺗﻮ ﻣﮑﻤﻞ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺧﻤﺪﺍﺭ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺳﯿﺪﮬﯽﺍﮐﮍﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﺑﻠﮑﮧ ﺩﺭﻣﯿﺎﻧﯽ ﻧﻮﻋﯿﺖ ﮐﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ‘‘1. ﺑﺨﺎﺭﻱ، ﺍﻟﺼﺤﻴﺢ، 5 : 2212 ، ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﻠﺒﺎﺱ،ﺭﻗﻢ : 5566.2 ﻣﺴﻠﻢ، ﺍﻟﺼﺤﻴﺢ، 4 : 1819 ، ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﻔﻀﺎﺋﻞ،ﺭﻗﻢ : 2338.3 ﺍﺑﻦ ﺳﻌﺪ، ﺍﻟﻄﺒﻘﺎﺕ ﺍﻟﮑﺒﺮﻱٰ، 1 : 412.4 ﺑﻴﻬﻘﻲ، ﺩﻻﺋﻞ ﺍﻟﻨﺒﻮﻩ، 1 : 2202۔ ﺻﺤﺎﺑۂ ﮐﺮﺍﻡ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮭﻢ ﻧﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﮔﯿﺴﻮﺋﮯ ﻋﻨﺒﺮﯾﮟ ﮐﯽﻣﺨﺘﻠﻒ ﮐﯿﻔﯿﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﻟﻤﺒﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﭘﯿﻤﺎﺋﺶ ﮐﻮﻣﺪِﻧﻈﺮ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﮍﮮ ﺍﭼﮭﻮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻝ ﻧﺸﯿﮟ ﺍﻧﺪﺍﺯﺳﮯ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﮔﺮ ﺯﻟﻔﺎﻥِ ﻣﻘﺪﺱ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﮨﻮﺗﯿﮟﺍﻭﺭﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻟﻮﺅﮞﮐﻮﭼﮭﻮﻧﮯ ﻟﮕﺘﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﮦ ﭘﯿﺎﺭ ﺳﮯ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧﻭﺁﻟﮧﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ’’ ﺫﯼ ﻟﻤۃ ( ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺯﻟﻔﻮﮞ ﻭﺍﻻ )‘‘ ﮐﮩﮧﮐﺮﭘﮑﺎﺭﺗﮯ، ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﺮﺍﺀ ﺑﻦ ﻋﺎﺯﺏ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧﻋﻨﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ :ﻣﺎ ﺭﺃﻳﺖ ﻣﻦ ﺫﻱ ﻟﻤﺔ ﺁﺣﺴﻦ ﻓﻲﺣﻠﺔ ﺣﻤﺮﺍﺀ ﻣﻦ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪﺻﻠﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ ،ﺷﻌﺮﻩ ﻳﻀﺮﺏ ﻣﻨﮑﺒﻪ .’’ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻟﻮ ﺳﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﻟﭩﮑﺘﯽ ﺯﻟﻔﻮﮞﻭﺍﻻﺳﺮﺥ ﺟﺒﮧ ﭘﮩﻨﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺴﯿﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ ‘‘1. ﻣﺴﻠﻢ، ﺍﻟﺼﺤﻴﺢ، 4 : 1818 ، ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﻔﻀﺎﺋﻞ،ﺭﻗﻢ : 2337.2 ﺑﺨﺎﺭﻱ، ﺍﻟﺼﺤﻴﺢ، 5 : 2211 ، ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﻠﺒﺎﺱ،ﺭﻗﻢ : 5561.3 ﺗﺮﻣﺬﻱ، ﺍﻟﺠﺎﻣﻊ ﺍﻟﺼﺤﻴﺢ، : 4 219 ، ﺍﺑﻮﺍﺏﺍﻟﻠﺒﺎﺱ،ﺭﻗﻢ : 1724.4 ﺗﺮﻣﺬﻱ، ﺍﻟﺠﺎﻣﻊ ﺍﻟﺼﺤﻴﺢ، : 5 598 ، ﺍﺑﻮﺍﺏﺍﻟﻔﻀﺎﺋﻞ، ﺭﻗﻢ : 3635.5 ﺍﺑﻮﺩﺍﺅﺩ، ﺍﻟﺴﻨﻦ، : 4 81، ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﺘﺮﺟﻞ، ﺭﻗﻢ :4183.6 ﺗﺮﻣﺬﻱ، ﺍﻟﺸﻤﺎﺋﻞ ﺍﻟﻤﺤﻤﺪﻳﻪ، 1 31 : ، ﺭﻗﻢ : 4.7 ﺍﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ، ﺍﻟﻤﺴﻨﺪ، : 4 300.8 ﺑﻴﻬﻘﻲ، ﺩﻻﺋﻞ ﺍﻟﻨﺒﻮﻩ، 1 : 223.9 ﺍﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ ﺍﺻﺒﻬﺎﻧﻲ، ﺍﺧﻼﻕ ﺍﻟﻨﺒﻴﺎ، 4 : 277،ﺭﻗﻢ :43۔ ﮐﺘﺐِ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺝ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﺍﺑﻮ ﺭﻣﺜﮧﺗﻤﯿﻤﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪِ ﮔﺮﺍﻣﯽ ﮐﮯ ﮨﻤﺮﺍﮦﺣﻀﻮﺭ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽﺑﺎﺭﮔﺎﮦﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﺋﮯ، ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺍُﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻢ ﻧﺸﯿﻨﻮﮞﺳﮯ ﺍﻥ ﺣﺴﯿﻦ ﻟﻤﺤﺎﺕ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﺮﺗﮯﮨﻮﺋﮯ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺯﻟﻒِ ﻋﻨﺒﺮﯾﻦﮐﺎ ﺗﺬﮐﺮﮦ ﯾﻮﮞ ﮐﯿﺎ :ﻭﻟﻪ ﻟﻤﺔ ﺑﻬﻤﺎ ﺭﺩﻉ ﻣﻦ ﺣﻨﺎﺀ .’’ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺯﻟﻔﯿﮟ ﺁﭖﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻟﻮ ﺳﮯﻧﯿﭽﮯ ﺗﮭﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﻮ ﻣﮩﻨﺪﯼ ﺳﮯ ﺭﻧﮕﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ‘‘1. ﺍﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ، ﺍﻟﻤﺴﻨﺪ، : 4 163.2 ﺍﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ، ﺍﻟﺼﺤﻴﺢ، 13 : 337 ، ﺭﻗﻢ : 5995.3 ﺑﻴﻬﻘﻲ، ﺍﻟﺴﻨﻦ ﺍﻟﮑﺒﺮﻱٰ، : 5 412 ، ﺭﻗﻢ :9328.4 ﻃﺒﺮﺍﻧﻲ، ﺍﻟﻤﻌﺠﻢ ﺍﻟﮑﺒﻴﺮ، : 22 279 ، ﺭﻗﻢ :716.5 ﺍﺑﻦ ﺳﻌﺪ، ﺍﻟﻄﺒﻘﺎﺕ ﺍﻟﮑﺒﺮﻱٰ، 1 : 4384۔ ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﮐﯽ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﺮﺍﺀ ﺑﻦﻋﺎﺯﺏﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺗﺎﺟﺪﺍﺭِ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺯﻟﻒِ ﺳﯿﺎﮦ ﮐﮯ ﺣﺴﻦ ﻭ ﺟﻤﺎﻝ ﮐﺎ ﺗﺬﮐﺮﮦﺍﻥﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ :ﻟﻪ ﺷﻌﺮ ﻳﺒﻠﻎ ﺷﺤﻤﺔ ﺍﻟﻴﺴﺮﻱ،ﺭﺃﻳﺘﻪ ﻓﻲ ﺣﻠﺔ ﺣﻤﺮﺁﺀ ﻟﻢ ﺁﺭ ﺷﻴﺌًﺎﻗﻂ ﺃﺣﺴﻦ ﻣﻨﻪ .’’ﺁﭖ ﺻﻠﻲ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺯﻟﻔﯿﮟ ﮐﺎﻧﻮﮞﮐﯽﻟﻮ ﺗﮏ ﻧﯿﭽﮯ ﻟﭩﮑﺘﯽ ﺭﮨﺘﯿﮟ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﺮﺥ ﺟﺒﮧ ﻣﯿﮟﺣﻀﻮﺭ ﺍﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺴﯿﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ ‘‘ﺑﺨﺎﺭﻱ، ﺍﻟﺼﺤﻴﺢ، 3 : 1303، ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﻤﻨﺎﻗﺐ،ﺭﻗﻢ :33585۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺻﺪﯾﻘﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠّٰﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﺳﮯ ﻣﺮﻭﯼﮨﮯ :ﻭ ﮐﺎﻥ ﻟﻪ ﺷﻌﺮ ﻓﻮﻕ ﺍﻟﺠُﻤّﺔ ﻭﺩﻭﻥ ﺍﻟﻮﻓﺮﺓ .ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺯﻟﻔﯿﮟ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﺍﻭﺭﺷﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﮨﻮﺍ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔1. ﺗﺮﻣﺬﻱ، ﺍﻟﺠﺎﻣﻊ ﺍﻟﺼﺤﻴﺢ، : 4 233 ، ﺍﺑﻮﺍﺏﺍﻟﻠﺒﺎﺱ،ﺭﻗﻢ : 1755.2 ﺍﺑﻮﺩﺍﺅﺩ، ﺍﻟﺴﻨﻦ، : 4 82، ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﺘﺮﺟﻞ، ﺭﻗﻢ :4187ﺍﺑﻮﺩﺍﺅﺩ ﮐﯽ ﻋﺒﺎﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﻓﻮﻕ ﺍﻟﻮﻓﺮۃ ﻭ ﺩﻭﻥ ﺍﻟﺠﻤۃﮐﮯﺍﻟﻔﺎﻅ ﮨﯿﮟ۔6۔ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﻣﻌﻨﺒﺮ ﺯﻟﻔﯿﮟ ﻗﺪﺭﮮ ﺑﮍﮪ ﺟﺎﺗﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻧﻮﮞﮐﯽ ﻟﻮﺅﮞ ﺳﮯ ﺗﺠﺎﻭﺯ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺘﯿﮟ ﺗﻮ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺮﺍﻡﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮭﻢ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ’’ﺫﯼ ﻭﻓﺮۃ (ﻟﭩﮑﺘﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺯﻟﻔﻮﮞ ﻭﺍﻻ )‘‘ ﮐﮩﻨﮯﻟﮕﺘﮯ۔ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺍﻋﻈﻢ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺣﻠﯿﮧ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮐﺎ ﺣﺴﯿﻦ ﺗﺬﮐﺮﮦﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺯﻟﻒِ ﻣﺸﮑﺒﺎﺭ ﮐﺎ ﺗﺬﮐﺮﮦ ﯾﻮﮞﮐﯿﺎ :ﮐﺎﻥ ﻧﺒﻲ ﺍﷲ ﺻﻠﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺫﻭ ﻭﻓﺮﺓ .’’ﺣﻀﻮﺭ ﻧﺒﻲ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻟﭩﮑﺘﯽﮨﻮﺋﯽ ﺯﻟﻔﻮﮞ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﮭﮯ۔ ‘‘ﺍﺑﻦ ﻋﺴﺎﮐﺮ، ﺍﻟﺴﻴﺮﺓ ﺍﻟﻨﺒﻮﻳﻪ، 3 : 1497۔ ﺍﮔﺮ ﺷﺒﺎﻧﮧ ﺭﻭﺯ ﻣﺼﺮﻭﻓﯿﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﺑﺎﻝ ﻣﺒﺎﺭﮎﻧﮧﺗﺮﺷﻮﺍﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧﻭﺳﻠﻢﮐﯽ ﺯﻟﻔﯿﮟ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺷﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﻧﮯ ﻟﮕﺘﯿﮟ ﺗﻮﺻﺤﺎﺑۂ ﮐﺮﺍﻡ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮭﻢ ﻓﺮﻁِ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﺁﭖﺻﻠﯽﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ’’ﺫﯼ ﺟﻤۃ ( ﮐﺎﻧﺪﮬﻮﮞ ﺳﮯﭼﮭﻮﺗﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺯﻟﻔﻮﮞ ﻭﺍﻻ)‘‘ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﭘﮑﺎﺭﺗﮯ۔ﺣﻀﺮﺕ ﺑﺮﺍﺀ ﺑﻦ ﻋﺎﺫﺏ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﺮﺗﮯﮨﯿﮟ :ﮐﺎﻥ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻣﺮﺑﻮﻋﺎً ﺑﻌﻴﺪ ﻣﺎ ﺑﻴﻦﺍﻟﻤﻨﮑﺒﻴﻦ، ﻭﮐﺎﻧﺖ ﺟﻤﺘﻪ ﺗﻀﺮﺏﺷﺤﻤﺔ ﺁﺫﻧﻴﻪ .’’ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻣﯿﺎﻧﮧ ﻗﺪ ﺗﮭﮯ۔ﺁﭖﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺷﺎﻧﻮﮞﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻓﺎﺻﻠﮧ ﺗﮭﺎ۔ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢﮐﯽ ﺯﻟﻔﯿﮟ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﻣﺒﺎﺭﮎﮐﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻟﻮ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ‘‘1. ﺗﺮﻣﺬﻱ، ﺍﻟﺸﻤﺎﺋﻞ ﺍﻟﻤﺤﻤﺪﻳﻪ، 1 48 : ، ﺭﻗﻢ :26.2 ﺍﺑﻦ ﻗﻴﻢ، ﺯﺍﺩ ﺍﻟﻤﻌﺎﺩ، 1 : 177.3 ﻋﺴﻘﻼﻧﻲ، ﻓﺘﺢ ﺍﻟﺒﺎﺭﻱ، : 6 5728۔ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﺮﺍﺀ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮨﯽ ﺳﮯ ﻣﺮﻭﯼ ﮨﮯ :ﺍﻥ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﷲ ﺻﻠﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎﻥ ﻳﻀﺮﺏ ﺷﻌﺮﻩﻣﻨﮑﺒﻴﻪ .’’ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺯﻟﻔﯿﮟﮐﺎﻧﺪﮬﻮﮞﮐﻮ ﭼﻮﻡ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ‘‘1. ﻣﺴﻠﻢ، ﺍﻟﺼﺤﻴﺢ، 4 : 1819 ، ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﻔﻀﺎﺋﻞ،ﺭﻗﻢ : 2338.2 ﺑﺨﺎﺭﻱ، ﺍﻟﺼﺤﻴﺢ، 3 : 1304 ، ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﻤﻨﺎﻗﺐ،ﺭﻗﻢ : 3358.3 ﺍﺑﻮ ﺩﺍﺅﺩ، ﺍﻟﺴﻨﻦ، 19 4 : ، ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﻠﺒﺎﺱ،ﺭﻗﻢ :4072.4 ﻧﺴﺎﺋﻲ، ﺍﻟﺴﻨﻦ، 8 : 134 ، ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﺰﻳﻨﻪ، ﺭﻗﻢ :52339۔ ﺻﺤﺎﺑۂ ﮐﺮﺍﻡ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮭﻢ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽﺍﻟﻠﮧﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺳﺮﺍﭘﺎﺋﮯ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﻣﺤﺒﺖﺑﮭﺮﮮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﺎﻝِ ﻭﺍﺭﻓﺘﮕﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺮﺗﮯﺭﮨﺘﮯﺗﮭﮯ۔ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﻋﻨﺒﺮ ﺑﺎﺭﺯﻟﻔﻮﮞ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﻮﻻﺋﮯ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﺳﯿﺪﻧﺎﻋﻠﯽﮐﺮﻡ ﺍﻟﻠّٰﮧ ﻭﺟﮩﮧ ﺍﻟﮑﺮﯾﻢ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ :ﮐﺎﻥ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﷲ ﺻﻠﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺣﺴﻦ ﺍﻟﺸﻌﺮ .’’ﺭﺳﻮﻝِ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﻣﻮﺋﮯﻣﺒﺎﺭﮎ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺣﺴﯿﻦ ﻭ ﺟﻤﯿﻞ ﺗﮭﮯ۔ ‘‘1. ﺍﺑﻦ ﻋﺴﺎﮐﺮ، ﺗﻬﺬﻳﺐ ﺗﺎﺭﻳﺦ ﺩﻣﺸﻖ ﺍﻟﮑﺒﻴﺮ، 1 :317.2 ﺑﻴﻬﻘﻲ، ﺩﻻﺋﻞ ﺍﻟﻨﺒﻮﻩ، 1 : 21710 ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﮨﻨﺪ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﮨﺎﻟﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺭﻭﺍﯾﺖﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ :ﺭﺟﻞ ﺍﻟﺸﻌﺮ ﺇﻥ ﺍﻧﻔﺮﻗﺖﻋﻘﻴﻘﺘﻪ ‘ ﻓﺮﻗﻬﺎ ﻭ ﺇﻻ ﻓﻼ ﻳﺠﺎﻭﺯﺷﻌﺮﺓ ﺷﺤﻤﺔ ﺁﺫﻧﻴﻪ ﺇﺫﺍ ﻫﻮ ﻭﻓﺮﻩ .’’ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﻣﺒﺎﺭﮎﺧﻤﯿﺪﮦﺗﮭﮯ، ﺍﮔﺮ ﺳﺮ ﺍﻗﺪﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﮓ ﺑﺴﮩﻮﻟﺖﻧﮑﻞ ﺁﺗﯽ ﺗﻮ ﻧﮑﺎﻝ ﻟﯿﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﺭﻧﮧ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺁﭖ ﺻﻠﯽﺍﻟﻠﮧﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺳﺮِ ﺍﻗﺪﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺟﺐﻟﻤﺒﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻟﻮ ﺳﮯ ﺫﺭﺍ ﻧﯿﭽﮯﮨﻮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ‘‘1. ﺗﺮﻣﺬﻱ، ﺍﻟﺸﻤﺎﺋﻞ ﺍﻟﻤﺤﻤﺪﻳﻪ، 1 36 : ، ﺭﻗﻢ : 8.2 ﺟﻠﻲ، ﺍﻟﺴﻴﺮﺓ ﺍﻟﺤﻠﺒﻴﻪ، : 3 435.3 ﺍﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ ﺑﺴﺘﻲ، ﺍﻟﺜﻘﺎﺕ، : 2 145.4 ﻃﺒﺮﺍﻧﻲ، ﺍﻟﻤﻌﺠﻢ ﺍﻟﮑﺒﻴﺮ، 15 22 : ، ﺭﻗﻢ :41411 ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻭﻗﺎﺹ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧﺭﻭﺍﯾﺖﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ :ﮐﺎﻥ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﷲ ﺻﻠﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺷﺪﻳﺪ ﺳﻮﺍﺩ ﺍﻟﺮﺃﺱﻭﺍﻟﻠﺤﻴﺔ .’’ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺭﯾﺶ ﻣﺒﺎﺭﮎﺍﻭﺭﺳﺮِ ﺍﻧﻮﺭ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﮔﮩﺮﮮ ﺳﯿﺎﮦ ﺭﻧﮓ ﮐﮯ ﺗﮭﮯ۔ ‘‘1. ﺻﺎﻟﺤﻲ، ﺳﺒﻞ ﺍﻟﻬﺪﻱٰ ﻭﺍﻟﺮﺷﺎﺩ، : 2 17.2 ﺍﺑﻦ ﺳﻌﺪ، ﺍﻟﻄﺒﻘﺎﺕ ﺍﻟﮑﺒﺮﻱٰ، 1 : 41812 ۔ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺁﺭﺍﺋﺶِﮔﯿﺴﻮﮐﮯ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦﻋﺒﺎﺱ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ :ﮐﺎﻥ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﷲ ﺻﻠﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﺴﺪﻝ ﻧﺎﺻﻴﺘﻪ ﺳﺪﻝﺁﻫﻞ ﺍﻟﮑﺘﺎﺏ، ﺛﻢ ﻓﺮﻕ ﺑﻌﺪ ﺫﻟﮏﻓﺮﻕ ﺍﻟﻌﺮﺏ .’’ﺣﻀﻮﺭ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢﭘﯿﺸﺎﻧﯽﺁﻗﺪﺱ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﺎﻝ ﺑﻐﯿﺮ ﻣﺎﻧﮓ ﻧﮑﺎﻟﮯﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﭩﺎ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺍﮨﻞِ ﮐﺘﺎﺏ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ،ﻟﯿﮑﻦ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﺱ ﻃﺮﺡﻣﺎﻧﮓ ﻧﮑﺎﻟﺘﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﮨﻞِ ﻋﺮﺏ ﻧﮑﺎﻻ ﮐﺮﺗﮯ۔ ‘‘1. ﺍﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ ﺑﺴﺘﻲ، ﺍﻟﺜﻘﺎﺕ، : 7 34 ، ﺭﻗﻢ :8879.2 ﺧﻄﻴﺐ ﺑﻐﺪﺍﺩﻱ، ﺗﺎﺭﻳﺦ ﺑﻐﺪﺍﺩ، 8 : 437، ﺭﻗﻢ :4545


سرِ بزم دکھلاویں ہیں بسکہ شوخی


مری حسرتیں دل میں گھبراتیاں ہیں
نکلنے کی راہیں نہیں پاتیاں ہیں

تری مست آنکھوں کی یہ پتلیاں تو
تماشا قیامت کا دکھلاتیاں ہیں

اُدھر بدلیاں ہیں، اِدھر میری آنکھیں
وہ پانی تو یہ اشک برساتیاں ہیں

صلاح اپنی آنکھوں کی اے دل سنیں کیا
کوئی کام کی بات بتلاتیاں ہیں

خدارا بتا دیں تو ٹک ہم کو سانسیں
کہاں آتیاں ہیں، کہاں جاتیاں ہیں

ارے یاس یہ حسرتیں ہیں جو میری
ترا نام سن سن کے گھبراتیاں ہیں

بنیں جو کہ تیرِ بلا کا نشانہ
فقط اہلِ دل ہی کی وہ چھاتیاں ہیں

سرِ بزم دکھلاویں ہیں بسکہ شوخی
وہ آنکھیں جو خلوت میں شرماتیاں ہیں

امیدیں جو میہمان ہیں میرے دل میں
لہو پیتیاں ہیں، جگر کھاتیاں ہیں

سُنا ہوں کہ اکثر نگاہیں تمہاری
مرے قتل کے بعد پچھتاتیاں ہیں

مُوا جائے زار ہے جن کے غم میں
وہ شکلیں نگاہوں میں کیوں آتیاں ہیں



محترم میر سوز کا کلام


محترم میر سوز کا کلام:- بندہ ناچیز کا پسندیدہ

اگر میں جانتا ہے عشق میں دھڑکا جدائی کا
تو جیتے جی نہ لیتا نام ہرگز آشنائی کا

جو عاشق صاف ہیں دل سے انہیں کو قتل کرتے ہیں
بڑا چرچا ہے معشوقوں میں عاشق آزمائی کا

کروں اک پل میں برہم کارخانے کو محبت کے
اگر عالم میں شہرہ دوں تمہاری بے وفائی کا

جفا یا مہر جو چاہے سو کر لے اپنے بندوں پر
مجھے خطرہ نہیں ہرگز برائی یا بھلائی کا

نہ پہنچا آہ و نالہ گوش تک اس کے کبھو اپنا
بیاں ہم کیا کریں طالع کی اپنے نارسائی کا

خدایا کس کے ہم بندے کہاویں سخت مشکل ہے
رکھے ہے ہر صنم اس دہر میں دعویٰ خدائی کا

خدا کی بندگی کا سوز ہے دعوا تو خلقت کو
ولے دیکھا جسے بندہ ہے اپنی خود نمائی کا

آپ تو جا کر ملی ہے عرش پروازوں میں روح


وصل کی حسرت نگاہوں سے مری کیا پا گئی
جو تری تصویر مجھ کو دیکھ کر شرما گئی

چہرهٔ پرنور کی اس کے جھلک دکھلا گئی
چاندنی ہم کو شبِ ہجراں میں کیا تڑپا گئی

قتلِ عاشق سے کجی ابرو میں اُس کی آ گئی
کیا نہ تھی یہ تیغ فولادی جو یوں بل کھا گئی

ہو گیا قطعِ تعلق سب سے وحشت میں مرا
بے خودی پاؤں کی میری بیڑیاں کٹوا گئی

جان آنکھوں سے نہ نکلی انتظارِ یار میں
موت بیٹھے بیٹھے بالیں پر مرے اکتا گئی

لگ گئے جیتے ہی جی ہم تو کنارے گور کے
ناتوانی تا سرِ منزل ہمیں پہنچا گئی

برگِ گل لے کر صبا تجھ کو یہاں آنا نہ تھا
تو اسیرانِ قفس کو اور بھی بھڑکا گئی

ابتدا ہی میں دکھائی عشق نے کیا انتہا
دل کے لگتے ہی جو منہ پر مردنی سی چھا گئی

جل نہ جائے سبزۂ تربت ہمارا کس طرح
جو گھٹا آئی وہ انگاروں کا مِنہ برسا گئی

تیشہ مارا سر پہ جب فرہاد نے نکلی صدا
جان کا کچھ غم نہیں محنت یہ سب بے جا گئی

آپ تو جا کر ملی ہے عرش پروازوں میں روح
اور مجھے رگ ہائے تن کے دام میں الجھا گئی

کون دریائے محبت سے اتر سکتا ہے پار
کشتیِ فرہاد آخر کوہ سے ٹکرا گئی

کیونکہ واشد کی توقع ہو دلِ پژمردہ کو
وہ کلی گل کی کہیں کھلتی ہے جو کمھلا گئی

شمع سے دیتا ہے نسبت تو جو روئے یار کو
کیا تری آنکھوں میں اے پروانہ چربی چھا گئی

عاشقِ کامل ہے زار تجھ سا ہرجائی نہیں
پھر نہیں پھرتی جدھر اُس کی طبیعت آ گئی


سبزیاں اور پھلوں


دنیا میں پائے جانے والی سبزیاں اور پھلوں کی ایک تہائی سے زیادہ اقسام کی افزائش ایک عمل کے زریعے ہوتی ھے جسے پولی نیشن کہا جاتا ھے۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کے ایک پھول سے نر پولنز جب دوسرے پھول کے مادہ پولنز پر گرتے ہیں تو افزائش کا عمل ہوتا ھے۔ نر اور مادہ پولنز کے ملاپ کاکام قدرت مکھیوں کے زریعے لیتی ھے جب وہ مکھیاں کسی پھول پر بیٹھتی ہیں تو اس کے نر پولنز ان کے ساتھ چپک جاتے ہیں اور جب وہی مکھی کسی دوسرے پھول پر بیٹھتی ہیں تو وہ نر پولنز اس پر گر جاتے ہیں اور یوں پولی نیشن مکمل ہوجاتی ھے۔ بدقسمتی سے دنیا میں مکھیوں کی تعداد میں دن بدن کمی ہوتی جارہی ھے جس سے پھلوں سبزیوں کی افزائش بری طرح متاثر ہورھی ھے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف امریکہ میں سالانہ پندرہ ارب ڈالرز کا نقصان صرف مکھیوں کی کم ہوتی ہوئی تعداد کی وجہ سے ہو رھا ھے جس سے ایک تو خوراک کی قلت ہورہی ھے اور دوسرے اس کی قیمت میں بھی اضافہ ہورھا ھے۔
اس ایشو کو دیکھتے ہوئے امریکی یونیورسٹی ہارورڈ نے ایک پراجیکٹ پر کام شروع کیا ھے جس کے تحت وہ روبوٹ مکھیاں بنائیں گے جو نہایت کم قیمت ہونگی اور پولی نیشن کے عمل کو بخوبی سرانجام دے سکیں گی۔ یہ پراجیکٹ بظاہر بہت چیلنجنگ ھے لیکن سائنسدان پرامید ہیں کہ وہ یہ ٹاسک اگلے چند سالوں میں مکمل کرلیں گے۔ باباکوڈا کے اس پیج پر کچھ عرصہ پہلے ایک پوسٹ شئیر کی تھی جس میں روبوٹ مکھیوں کے زریعے کھاد پہنچانے کی ٹیکنالوجی کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ اسی طرح اب روبوٹ مکھیاں بھی بنیں گی جو کہ پھلوں سبزیوں کی افزائش کو بڑھانے میں مدد دیں گی اور امید ھے کہ اس سے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔
یہ تو تھا ایک مختصر احوال کہ ترقی یافتہ ممالک میں کیا ہو رھا ھے۔ آجائیں اپنے پاکستان، جہاں بے چارے وزیرستان کے بے گھر ہونے والے لاکھوں لوگوں کو آج سموسے تقسیم کرنا بھی ناممکن ہوگیا تھا۔
ایک طرف ترقی یافتہ ممالک روبوٹ مکھیاں بنا کر پولنز کی ڈسٹری بیوشن کا پلان بنا رھے ہیں اور دوسری طرف ہم انسانوں میں سموسے بھی تقسیم نہیں کر پارھے۔
اپنی اپنی ترجیحات اور اپنے اپنے شوق!!!


ہفتہ، 21 جون، 2014

آج سوچا ہے----

----- آج سوچا ہے خیالوں میں بلا کر اُنکو، پیار کے نام پہ تھوڑی سی شکائیت کر لیں


عکس


ﮐﺘﻨﺎ ﺭﻭﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﯼ ﺧﺎﻃﺮ ۔ ۔ ۔
ﺍﺏ ﺟﻮ ﺳﻮﭼﻮﮞ ﺗﻮ ﮨﻨﺴﯽ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ


بزرگوں کا دامن



بزرگوں کا دامن
بچپن میں شیخ سعدی اپنے والد کی انگلی پکڑے ہوئے کسی میلے میں جارہے تھے۔ راستے میں کسی جگہ بندر کا کھیل دیکھنے میں ایسے لگے کہ والد کی انگلی چھوٹ گئی۔ والد اپنے دوستوں کے ساتھ آگے نکل گئے اور سعدی تماشا دیکھتے رہے۔ کھیل ختم ہوا تو والد کو سامنے نہ پاکر بے اختیار رونے لگے۔ آخر اللہ اللہ کر کے والد بھی انھیں ڈھونڈتے ہوئے آنکلے۔ انھوں نے سعدی کو روتا دیکھ کر ان کے سر پر ہلکا سا چپت مارا اور کہا: "نادان بچے! وہ بے وقوف جو بزرگوں کا دامن چھوڑ دیتے ہیں، اسی طرح روتے ہیں۔"
سعدی کہتے ہیں کہ میں نے سوچا تو دنیا کو ایسا ہی پایا، ایک میلے کی طرح۔ آدمی اس میلے میں مجھ جیسے نادان بچوں کی طرح ان بزرگوں کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے، جو اچھے اخلاق سکھاتے اور دین کی باتیں بتاتے ہیں، تب اچانک اسے دھیان آتا ہے کہ زندگی غفلت میں گزر گئی، پھر روتا اور پچھتاتا ہے۔


جہنم کے تصور سے رونا


جہنم کے تصور سے رونا
:فرمان الہی 
ترجمہ : پس اُنہیں چاہیئے کے بہت کم ہنسیں اور بہت زیادہ روئیں ، ان اعمال کی وجہ سے جو وه کرتے تھے
 :رسول اكرام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 
لوگوں ! اپنے گناہوں پر خوب روؤ ، اگر تمہیں رونا نہ آئے تو رونے جیسا چہرہ ہی بنا لو . قیامت کے دن جہنمی اس قدر روئیں گے کے ان کے رخصاروں پر آنسوؤں کی نیحرین جاری ہو جائینگی -        ابن ماجہ 

تیری مٹی ذرا جدا ہے


اب میں باتیں کرتا ہوں، مگر خود سے، کیونکہ بہت دن ہو چلے تھے مجھے مجھ سے ملے ہوئے- اب خود کی باتیں سنتا ہوں اور خود کی تصحیح کرتا ہوں-مجھے خود کو بہت سنوارنا ہے، مجھے خود کو بہت نکھارناہے- جھوٹی دنیا کے بودے رشتے اب میرے پاؤں کے گفتار نہ بنیں گے، میں اب در در کسی رشتے کا امیدوار نہ بنوں گا
صدیوں کا مسافر ہوں، کیسے کسی کو اسیر کروں، اپنی محبتوں کی بیٹھک میں کیسے کسی کو مقید کروں-ہر ذرہ مجھ سے کہتا ہے ،تم نے افلاک کا سفر کرنا ہے،کسی طلسم حسینہ نامئہ بر کی زلفوں سے تجھے کیا غرض، تیرا لبادہ بوسیدہ ہی طے ہوا فلق پہ،تیرے حواس کی خو میں فقط بس آبیاری ہے، نہ منزل تیری یہاں ٹھیری نہ تھجے یہاں دوام ہے، فقط تو قاصد نامئہ بر کے حکم کا میراث ہے-
تربیت میری محل کے جھروکوں میں ایسی سنگلاخ رہی، نہ ممتا کی چھاؤں محسوس کی نہ بپتا کا سائیباں نصیب ہوا، جوانی کی دھلیز پر ایک نوشہ پری پر حجاب عطا ہوئی، پر پھر وہی افتاد جونمردی اور تائید حر مندی وہ بھی مجھ سے جدا کی، نہ رہی ممتا کی جھلملاتی نرم گود نہ پائی محبتوں کی نرگسی مسکاں-
حکم ہوا ،تھجے بنایا گیا ہے فقط بجا آوری کیلیئے، تیری مٹی ذرا جدا ہے، تجھے مانگ کا کوئی حق نہیں تیری شرست میں مں فقط "ھاں" ہے- تو مٹی کا فقط باسی ہے تجھے رہنا اب خاص ہے، اس پاسبان حرم ؤطن کی آنچ کے آنچل کی حرمت کے دھیرج کو تیری مٹی کو گوندھا گیا تھا وہاں، تو چاہ کہ بھی کسی طور سے نہ لے سکے کا مئہ نفس کا سرور،چل اٹھ کے تیرے نام کا طبل اب بج چکا، تجھے خود سے بڑھ کر کود سے بڑے ہیں کام کرنے بس اسی کو مقصد سمجھ تو لے بس اسی کو مربوط تو کر لے-
ہاں! یہ تیرا قلم نہیں ہے ،یہ بات تو تو کہیں اور طے ہے-------

خادم امت مسلمہ ، 
میجر زرخھاف خان آفریدی




بدھ، 28 مئی، 2014

حضرت شیخ رکن الدین العالم علیہ الرحمہ


حضرت شیخ رکن الدین العالم علیہ الرحمہ نے اپنے وصال سے پہلے اپنے ارادت مندت کے ہجوم سے خطاب کرت ہوئے فرمایا کہ
" دوستو! یہ دنیا ایک سارئے ہے۔ جو لوگ اس دنیا میں مسافروں کی طرح رہتے ہیں اور اس کی کسی چیز سے دل نہیں لگاتے تو جب داعی اجل سے بلاوا آتا ہے ہے تو وہ خوشی سے اپنے مالکِ حقیقی کی طرف سفر کرتے ہیں اور انہیں اس دنیا کو چھوڑنے کا ذرا بھی ملال نہیں ہوتا لیکن جو لوگ اس دنیا کو اپنا مسکن بنا دیتے ہیں انہیں اس دنیا کو چھوڑتے وقت ضرور تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ 
دوستو! 
میں تم ہی میں پیدا ہوا اور تم میں ہی جوان ہوا اور تم میں ہی رہ کر بڑھاپے کی منزلیں طے کر رہا ہوں۔ آج میں اس مقام تک پہنچ چکا ہوں جہاں سے انسان اپنے ملک کی طرف بڑھ جائے جہاں اس کا ابدی سکون موجود ہے۔ ممکن ہے کہ آج کے بعد ہم پھر نہ ملیں اس لیے اگر کسی کو مجھ سے کچھ لینا ہو تو وہ مانگ لے اور اگر کسی کو میری طرف سے تکلیف پہنچی ہو تو وہ اسی دنیا میں اپنا بدلہ چکا لے"
اللہ آپؒ پر رحمت نازل فرمائے اور ان کے صدقے ہماری مغفرت فرمائے۔ آمین




“اتفاق”




ارتقا پسندوں کا جهوٹا خدا “اتفاق” ہے۔
ڈارونیت پسندوں کے مطابق، زندگی کا زمین پے غیر معمولی طور پے مختلف قسم کا ہونا صرف ایک “اتفاق” کی وجہ سے ہے۔ یہ کہنے سے بچنے کے لئے کہ “اﷲ نے انہیں بنایا” ڈارونیت پسندوں نے اتفاق کو ہی اپنا خدا مان لیا ہے اور یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ اندھے اور ناقابلِ یقین واقعات نے اس شاندار اور حیران کن طور پر پیچیدہ زندگی کے نظام کی بنیاد رکھی ڈارونیت نے اس مضحکہ خیز اور سطحی نظرئے سے لوگوں کو اندھیرے میں رکھنا ممکن بنا لیا۔ جس طریقے سے پروفیسرز یونیورسٹیز میں لیکچرس دیتے ہیں اور سائنسدان اور اساتذہ جنہوں نے پڑھا ہے اور تحقیق کی ہےوہ ان بے ترتیب واقعات کو ایسے پیش کرتے ہیں جیسے کہ ان واقعات کو تخلیقی عقلمندی تھی اور سوچنے کے اور فیصلے لینے کے قابل تھے، اور جیسے وہ ہی تھے جنہوں نے ایسے غیر معمولی نظام پیدا کئے۔﴿معاذ اﷲ﴾
ارتقا پسندوں کا جهوٹا خدا “اتفاق” ہے۔
اتفاق ارتقا پسندوں کا جهوٹا خدا ہے، جسے سمجھا جاتا ہے کہ اس نے سب چیزوں کو پیدا کیا اور معجزات کرتا ہے۔ ڈارون کے سرسری نقطہ نظر کے مطابق، وقت اور اتفاق، عجیب طریقے سے ہر چیز میں زندگی لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہ غیر منطقی نظریہ یہ بتاتا ہے کہ اتفاق وہ کرلیتا ہے جو کہ انسان بھی نہیں کرسکتا اور ایک طرح سے سائنسدانوں اور ان کی لیبارٹریز سے کئی گنا زیادہ علم، صَلاحِیتیں اور وَسائِل رکھتا ہے۔ یقیناً،کسی بھی باخبر اور غور و فکر کرنے والے اور صحیح اور غلط کی پرکھ رکھنے والے شخص کے لئے اس دعوٰے کو صحیح ماننا ناممکن ہے۔ عالمی سطح پر اس نظرئے کی غیرمنطقیت اور بیوقوفی کو دنیا میں اچھالنے کے نتیجے میں ارتقا پسندوں نے “اتفاق” کا لفظ استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے۔ وہ یہ تصور کر رہے ہیں کہ دوسرے اتنے ہی غیر منطقی الفاظ استعمال کر کہ خود کو بیوقوف لگنے سے بچالینگے۔ چاہے وہ حادثہ، یا اتفاق، یا بے ترتیب واقعات کی بات کریں ، تب بھی وہ ایک ایسے منظرنامے کے بارے میں بات کر رہے ہیں جس میں غیر شعوری واقعات ایک متوازن، سڈول اور غیر معمولی طور پر خوبصورت زندگی والی دنیا پیدا کرتے ہیں۔ پر یہ دعٰوے ان کو مزید رحم کے قابل بنا دیتے ہیں۔
ڈارونیت پسند جو کہ زندگی کی ابتدا کو ارتقاء کی اصطلاحات میں بیان کرنا چاہتے ہیں یہ بتانے سے بھی قاصر ہیں کہ صرف ایک واحد پروٹین بھی اپنے آپ کیسے وجود میں آیا۔ یہ پہلی اور بہت اہم حقیقت ہےجو کہ ڈارونیت پسندوں کے دھوکے کے بارے میں جاننی چاہئے۔ ایک پروٹین کی بھی تشکیل کے بارے میں بتانے سے قاصر، ڈارونیت پسند واضح طور پردھوکہ دہی کا سہارالے رہے ہیں ۔ جو بھی من گھڑت کہانی وہ زندگی کی ابتدا میں بتاتے ہیں سب مصنوعی ہے۔جس طریقے سے یہ روشنی کی طرف آیا ہے اور جس طرح سے لاکھوں زندہ فوسلس جو کہ کئی سئو لاکھ سال بنا تبدیل ہوئے رہیں ہیں ڈارونیت کے خاتمے کو یقینی بنا دیا ہے۔


ماں، تم تو کہتی تھی


جب میری نانی مر گئی تو ماں اپنے اکلوتے چھوٹے بھائی کو اپنے گھر لے آئی۔ میرے نانا پہلے وفات پا چکے تھے، ماں کی شادی سے بھی بہت پہلے۔ یہی وجہ تھی کہ ماں اسے گھر لے آئی۔
کہتے ہیں میرا ماموں خصلت اور عادات و اطوار میں مثالی آدمی تھا، بے حد نیک اور بے ضرر، اتنا بے ضرر کہ سوئے ہوئے آدمی کو جگانا بھی اس کے نزدیک معیوب تھا۔ جیسا کہ سنتے آئے ہیں کہ نیک آدمیوں کی زندگی مختصر ہوتی ہے۔ میرے ماموں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ دو دن بخار ہوا اور تیسرے دن چل بسا۔
ماں رو رو کر بے حال ہو گئی۔ دوسرے دن بھائی کی قبر پر گئی تو شدت غم سے بے ہوش ہو کر گر گئی۔ ہماری دوسری رشتہ دار عورتیں یہ صورت حال دیکھ کر گھبرا گئیں اور انھوں نے چیخ و پکار شروع کر دی۔ خود میں بھی ان دنوں چھوٹی سی تھی، چنانچہ دہاڑیں مار کر رونے لگی۔
قبرستان کے چوکیدار شوضل کاکا نے شور سنا تو دوڑا آیا۔ اس کے ہاتھ میں ٹھنڈے پانی کا کٹورا تھا۔ ہماری ایک رشتہ دار عورت نے پورا کٹورا ماں پر انڈیل دیا۔ ماں کے کپڑے بھیگ گئے۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی۔ سفید برقع جسے وہ آدھا الٹا چکی تھی ،بکھرا پڑا تھا۔ لاش کی طرح زرد رنگ اور چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، ماں کی یہ حالت دیکھ کر میں دیوانوں کی طرح اِدھر اُدھر دوڑنے اور چیخ چیخ کر رونے لگی۔ مجھے ایسا لگا تھا کہ ماں بھی ماموں کی طرح مر چکی اور سفید کفن میں لپٹی ہوئی ہے۔ آج بھی ان لمحوں کی یاد آئے، تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور میری روح کانپ جاتی ہے۔
دو تین روز بعد جب ماں دوبارہ ماموں کی قبر پر گئی تو میرے اور ہماری نوکرانی دلاجان بی بی کے علاوہ کوئی ساتھ نہ تھا۔ اچانک ماں کی حالت پھر بگڑ گئی اور وہ بے ہوش ہوگئی۔ قبرستان کا چوکیدار شوضل کاکا دوبارہ ہماری مدد کو پہنچا اور دلاجان بی بی سے کہنے لگا’’گھر والوں کو کہہ دو، بیگم صاحبہ کو قبرستان نہ آنے دیں۔ خواہ مخواہ روگ لگ جائے گا۔ اگر بہت ہی مجبوری ہے، صبر نہ آئے، تو چند روز ناغہ کرنے کے بعد آئے۔ آہستہ آہستہ غم ہلکا ہو جائے گا۔‘‘
ماں ہوش میں آئی تو دلاجان بی بی نے شوضل کاکا کی بات دہرائی۔ ماں رونے لگی، بولی:
’’اکلوتے بھائی کا غم بھی کبھی کم ہوگا؟ ایسی جوانمردگی کی موت، کلیجا کٹ کٹ جاتا ہے۔ بے چارہ دلہن کے چہرے کا گھونگھٹ بھی نہ اٹھا سکا۔ ہائے موت کو بھی ترس نہ آیا!‘‘ ماں پھر رونے لگی۔ ’’باپ کا خون اور ماں کی آخری نشانی۔ موت کے بعد بھی ماں کے کیا کیا ارمان تھے، پختہ قبر بنانے کی آرزو اور اس پر سرخ سبز جھنڈے لہرانے کی حسرت، لیکن خدا جانے ایسا ہواکیوں نہیں !‘‘
اب کوئی دن ایسا نہ جاتا کہ ماں قبرستان نہیں جاتی۔ بھائی کی قبر پر ہاتھ رکھ کر زاروقطار روتی۔ میں حیران ہوتی کہ آنسوئوں کا یہ رواں دواں کارواں ختم کیوں نہیں ہوتا؟ یہ ڈھیروں پانی کہاں سے آتا ہے۔ وہ پھر قرآن مجید کھولتی، پڑھتی اور ہچکیاں لے لے کر تلاوت کرتی۔ آنسو تھے کہ پھر بھی نہ تھمتے۔ لیکن احتیاط کرتی کہ بہتے آنسو قرآن کے صفحات کے بجائے دائیں بائیں گریں۔
وہ پھر پنج سورہ لے کر جانے لگی۔ اب میں اور ماں ہی قبرستان جاتی تھیں۔ پھر آہستہ آہستہ قبر پر جانا کم ہونے لگا۔ جمعرات کے جمعرات اور پھر بتدریج مہینے دو مہینے میں ایک آدھ بار، یوں ایک سال گزر گیا۔ اب شب قدر یا عید آتی تو ماں ماموں کی قبر پر چلی جاتی۔ پھر ایک وقت آیا میں اس سے کہتی’’ماں، ماموں کی قبر پر نہیں جانا؟ اب تو ۲؍ سال بیت گئے ہیں۔‘‘
تب ماں چونکتی، ٹھنڈی آہ بھرتی اور کہتی’’ہاں بیٹی! اس جواں مرگ کو مرے ۲؍ سال ہو گئے۔ زندگی بھی کیا ہے، ۲ ؍ سال آنکھ جھپکتے گزر گئے جیسے کل ہی وہ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوا تھا۔‘‘
ماں کی آنکھیں ڈبڈبا جاتیں۔ تب مجھے وہ وقت یاد آ جاتا جب ماں قبر پر دہاڑیں مارتے ہوئے بے ہوش ہو جاتی تھی۔ کتنافرق تھا تب میں اور اب میں…!
پھر وہ وقت بھی آگیا کہ ماں نے قبرستان جانا بالکل ہی ترک کر دیا۔ اسے یاد ہی نہ رہتا، فرصت بھی نہ ملتی۔ اگرچہ میں چھوٹی تھی مگر مجھے اب تک یاد ہے کہ اس سال بہت بارشیں ہوئی تھیں۔ شوضل کاکا نے یہ خبر پہنچائی کہ ماموں کی قبر زمین میں دھنس گئی اور تختے ٹوٹ گئے ہیں۔ مجھے اس خبر سے یوں فکر ہوئی کہ کہیں ماں کو پھر دورہ نہ پڑ جائے۔ مگر کچھ بھی نہیں ہوا۔ ماں پر اس خبر نے کوئی اثر نہ کیا۔
میرے بھائی نے کہا ’’ماں تم کہو، تو کسی کو ساتھ لوں اور ماموں کی قبر ٹھیک کر دوں؟‘‘
ماں نے کسی جذبے کے بغیر سرد لہجے میں کہا ’’کیچڑ اور پانی میں کیا اپنے آپ کو دق کرو گے۔ شوضل کاکا سے کہہ دو، مزدور لگا کر ٹھیک کر لے۔‘‘
پھر اچانک ابا کا تبادلہ ہوگیا۔ہم سب عزیزوں، رشتے داروں اور دوستوں سے گلے ملے،دعوتیں ہوئیں۔ لیکن کسی کو یاد نہ رہا کہ ماموں کی قبر پر دو پھول ہی ڈال آئیں۔ یوں تبادلے ہوتے رہے، وقت گزرتا رہا۔ دن مہینوں میں اور مہینے برسوں میں بدلتے گئے۔ ابا کو پنشن مل گئی اور ہم گائوں واپس آگئے۔
میرا خیال تھا، وطن واپس ہوتے ہی ماں فوراً ماموں کی قبر پر جائے گی۔ میں انتظار میں تھی۔ ہفتہ گزر گیا، ۲؍ ہفتے گزر گئے، مہینا گزر گیا، ۲؍ مہینے گزر گئے۔ مگر کسی کو خیال نہ آیا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے ماں سے کہا ’’ماں قبرستان نہیں جائو گی؟‘‘
ماں نے مجھے اس طرح دیکھا جیسے ذہن پر زور ڈال کر کچھ یاد کر رہی ہو۔ پھر بولی’’ہاں چلے جائیں گے نا! مگر ابھی اپنے پرایوں کی دعوتیں ختم نہیں ہوئیں۔ سامان بھی اِدھر اُدھر بکھرا پڑا ہے۔ ذرا سانس لے لیں پھر جائیں گے۔‘‘
لیکن میں نے اصرار کیا ’’نہیں ماں، آج جائیں گے ماموں کی قبر پر۔‘‘
ماں چند لمحے غیرارادی طور پر مجھے دیکھتی رہی اور پھر آخر چل پڑی۔ ہم نے حیرت سے پھیلے قبرستان کو دیکھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اب مزید ایک قبر کی گنجائش نہیں۔ رکھ کے درخت بھی تقریباً ختم ہوگئے۔ وہ چھوٹا سا میدان بھی نظر نہیں آ رہا تھا جس میں جنازے کی نماز پڑھی جاتی تھی۔
ماموں کی قبر کے قریب ایک چھوٹا سا درخت تھا، وہ بھی نظر نہیں آیا۔ تلاش کے باوجود ماموں کی قبر شناخت نہ ہو سکی۔ ماں نے اپنا سفید برقع پیچھے کی طرف ڈال لیا تھا جس کے زمین کو چھوتے کناروں سے قبرستان کی سوکھی گھاس اور کانٹے الجھ گئے۔ ماں نے برقع اتار کر ایک طرف رکھ دیا اور بولی’’اب تو بیچارے کی قبر کی ڈھیری بھی نہیں ملتی۔ نام کیا مٹا، نشان بھی مٹ گیا۔ آئو واپس چلیں۔‘‘
ماں واپس ہونے لگی۔ اس کا یہ رویہ مجھے عجیب ہی نہیں برا بھی لگا۔ میری بچپن کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ وہ سب کچھ یاد آگیا کہ ماموں کی موت پر ماں کی کیا حالت ہوئی تھی۔ میں نے حیرت سے سوچا ’’یااللہ، یہ وہی عورت ہے جو چند سال پہلے بھائی کی موت پر خون کے آنسو روتی رہی تھی اور کئی بار بے ہوش ہوئی۔ اب اس کا دل پتھر کا ہوچکا ہے۔‘‘
میں نے اس سے کہا ’’ماں، تم تو کہتی تھی، ماموں کی قبر پکی بنوائوں گی!‘‘
’’ہاں بیٹی! لیکن اس سے کیا فرق پڑتا؟ میں سونے کی قبر بھی بنوا دیتی مگر میرے بعد کون تھا کہ اسے یاد رکھتا اور پھر ہمیں بھی ایک دن مٹی ہوجانا ہے۔ نشان تک باقی نہیں رہتا۔‘‘
ماں واپسی کا ارادہ کر رہی تھی، مگر میرا دِل نہیں مانا۔ ماں کو وہیں چھوڑ کر میں چوکیدار کی کوٹھڑی کی طرف چل پڑی۔ سوچ رہی تھی، شوضل بابا زندہ بھی ہوں گے یا نہیں؟ اسی لمحے ایک سفید باریش آدمی کو دیکھا جو ہڈیوں کا چھوٹا سا متحرک ڈھانچہ تھا۔ فوراً خیال آیا کہ یہی شوضل بابا ہوگا؟
قریب پہنچی اور غور سے دیکھا تو وہی تھا۔ پوچھا! ’’بابا! اگر یاد ہو، بہت عرصہ ہوا ایک نوجوان اس قبرستان میں دفن ہوا تھا۔ صبح اس کی بہن قبر پر آتی اور روتے روتے بے ہوش ہو جاتی۔ مجھے یاد ہے، آپ نے اسے آنے سے منع کیا تھا کہ خواہ مخواہ روگ لگ جائے گا۔ مگر اب اس نوجوان کی قبر نہیں ملتی؟‘‘
اس کے بعد میں نے شوضل بابا کو اپنے باپ کا نام بتایا اور یہ بھی کہ وہ میرے ماموں کی قبر تھی۔شوضل بابا نے اوپر سے نیچے دیکھ کر میرا جائزہ لیا، پھر اطمینان سے بولا:
’’بیٹی! یہاں بہت سی مائیں اور بہنیں بھائیوں اور بیٹیوں کی قبروں پر بے ہوش ہوتی رہی ہیں۔ یہ سب قبریں اورمٹی کی ڈھیریاں جو آپ کو نظر آتی ہیں، ان میں دفن پیاروں کے زخمی دلوں کا درد آنسوئوں کی شکل میں بہتا رہا ہے۔ پھر دھیرے دھیرے وقت کے دھاگوں نے ان گہرے زخموں کو رفو کر دیا۔ اشکوں کی جگہ آہوں نے لے لی۔ پھر یہ آہیں بھی وقت کی آندھی اڑا کر لے گئی۔ وہ لوگوں کے دلوں سے اپنے پیاروں کی یادیں بھی سمیٹ کر لے گئی۔ وقت کی یہی آندھی ان قبروں پر بھی گزری جس نے انھیں مٹی کی ڈھیریوں میں تبدیل کردیا۔ پھر ایک وقت آئے گا یہ ڈھیریاں بھی ناپید ہو جائیں گی اور پھر لوگ پیاروں کی قبروں پر ہل چلا دیں گے…‘‘
خدا جانے شوضل بابا اور کیا کچھ کہتا رہا، میں سن نہ سکی کیونکہ ماں بلند آواز سے مجھے بلا رہی تھی’’آئو بیٹی، بہت دیر ہو گئی ہے۔‘‘میں نے بے بسی سے ماں کی طرف دیکھا اور چل پڑی…