زار کے صفحے

بدھ، 9 جولائی، 2014

سرِ بزم دکھلاویں ہیں بسکہ شوخی


مری حسرتیں دل میں گھبراتیاں ہیں
نکلنے کی راہیں نہیں پاتیاں ہیں

تری مست آنکھوں کی یہ پتلیاں تو
تماشا قیامت کا دکھلاتیاں ہیں

اُدھر بدلیاں ہیں، اِدھر میری آنکھیں
وہ پانی تو یہ اشک برساتیاں ہیں

صلاح اپنی آنکھوں کی اے دل سنیں کیا
کوئی کام کی بات بتلاتیاں ہیں

خدارا بتا دیں تو ٹک ہم کو سانسیں
کہاں آتیاں ہیں، کہاں جاتیاں ہیں

ارے یاس یہ حسرتیں ہیں جو میری
ترا نام سن سن کے گھبراتیاں ہیں

بنیں جو کہ تیرِ بلا کا نشانہ
فقط اہلِ دل ہی کی وہ چھاتیاں ہیں

سرِ بزم دکھلاویں ہیں بسکہ شوخی
وہ آنکھیں جو خلوت میں شرماتیاں ہیں

امیدیں جو میہمان ہیں میرے دل میں
لہو پیتیاں ہیں، جگر کھاتیاں ہیں

سُنا ہوں کہ اکثر نگاہیں تمہاری
مرے قتل کے بعد پچھتاتیاں ہیں

مُوا جائے زار ہے جن کے غم میں
وہ شکلیں نگاہوں میں کیوں آتیاں ہیں



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں