زار کے صفحے

بدھ، 9 جولائی، 2014

داستان عشاق وصل

ہم ذات میں خود کو مدفن کر کے اکثر تاج محل کی ان غلام گردشوں میں شوریدہ شوریدہ گھومتے ہیں، جہاں کبھی نور النساء اور پھر کئی داستان عشاق وصل، پرندوں کی بیٹ کے تلے گم ہو جاتی ہیں- جیسے کوئی ذندہ عشق سیمنٹ گارے کے چوکور بلاکس کے پیچھے ذندہ چنوا دیا جاتا ہے اور نام لگتا ہے ذات پات، اونچ نیچ کا----------چلو وہ زمانہ تو ابتدائے اسلام کا تھا،مروجہ افلاسی اومر کا تھا؛ مگر آج کیوں کسی کی دھانی چنریا کو، ہرن آنکھوں کو،سرسراتی مدھوش سانسوں کو پابنس سلاسل کر دیا جاتا ہے، جبکہ ہمارا تو منشور بھی اسلامی، آفاقی گفتار بھی مذہبی اور ایمان کے علمبردار بھی ہم؛ تو کیوں رشتوں پہ لید مل دی جاتی ذات پات کی اور افکار مسلماناں ہوتے ہوئے کیوں چن دیا جاتا خوابوں کو ذندان میں بے وجہ-------آخر کب جاگے گا انسان، کیا ہم زمانہ جہل کی طرف پھر چل پڑے  ہیں؟،کیا پھر کسی "نور" کے پرتو کا گمان ہے ہمیں؟---- جاگ انسان جاگ کہ یہی وقت ماحاصل ہے مسلمان ہونے کے فن عشق میں


1 تبصرہ:

  1. جستجو ہو تو سفر ختم کہاں ہوتا ہے یوں تو ہر موڑ پہ منزل کا گمان ہوتا ہے.مگرھم عجیب عجیب قسم کے خود ساختہ دائروں میں خود کو قید کئے ھوئے پھرتے ھیں.

    جواب دیںحذف کریں