ہر کوئی اپنے زمانے کو برا اور گزرے زمانے کی رام لیلا جبتا ہے۔سر دھنتا رہتا ہے، مگر اس سمےاچھت ریکھایئں کیا پرہوت کرتی رھیں اس سے ناواقف رہتا یے۔ صرف اس پر کیا موقف، ھم نے جو سوچ کی خوردبین خود پر ڈالی تو فقط زمین پر ماتھے کو رگڑتے پایا - جن باتوں کی وعدہ الست میں لبیک کہی وہی سوچ 1400 سال میں بھلا بیٹھے، جب ابتدائے آفرینش سے سب چیزیں مقررتھیں، تو پھر رنگولی کی پچکاریاں کیوں مار رہا ہے"وہ"، ،یہی سوچ کے ساتھ ادھر حاضر ہوں آخر اس صدی کی اہمیت اور ھمارا مقصد کیاہے؟
لوگ اپنے یقین کے سہارے بھی زندہ رہتے ہیں جو انہیں ادنٰی اعلٰی سے بےنیاز لوگوں کی اصلیت سے آگاہ رکھتا ہے اور ڈوبنے سے پہلے تیرنے کا حوصلہ بھی دیتا ہے۔
جواب دیںحذف کریںبابا سے ہونے والی گفتگو یاد آ گیئ....
جواب دیںحذف کریں" یقین اور بے یقینی کے درمیان موجود لوگ ذہنی طور پر اس بات کے لیے تیار ہوتے ہیں کہ نہ جانے کب پاؤں ک نیچے سے زمین کھسک جائے اور سر سے آسمان سرک جائے منہ کے بل گرنے کا سب سے زیادہ خطرہ تو اسے ہوتا ہے جو یقین کی سب سے بلند جگہ پر کھڑا ہو"
ابّا مسکراے اور بولے " تھامنے والے ھاتھ منہ کے بل گرنے نہیں دیتے، قدرت اسی لیے ہمیں ان لوگوں کا ساتھ دیتی ہے... الله ہم سب پر اپنا کرم کرے امین
feb 13th 2014