جمعرات، 13 مارچ، 2014

تارے کی تولید

کل رات میری ملاقات ہمارے ٹیلے کے جگنو سے ہوئی، کئی دنوں بعد ملا مجھ سے تو میری ناراضگی سے وہ بھی شرمندہ ہو گیا- بولا، زار صرف تم ہی تو نہیں ہو دلربا میرے، پورا اک جہاں ہے میری ذات سے منسلک- اسی دوران برستی برف اور چھبتی یخ برفیلی ہوائیں تھم سی گئیں اور نیلا چاند اپنی کنواری ٹھنڈی کرنوں کے پنکھ پھیلائے آسمان بشر پر ظاہر ہوا اور اپنی کنواری تمتماتی پلکوں کو نیم وا کرکے جب افلاک پر نظر بھر کر دیکھا تو اسے احساس ہوا کہ،  وہ جو خود کو جاں امبر سمجھتا ہے  اوراس نیلے آکاش کی دیوی بن کر  مہرباں  ہوتا  رہتاہے،  تووہ چاند  جیسا خود چاندکتنا تنہا ہے، اتنے دل گرویدہ  دیوانوں کے عشق مجنوں کی قطار  میں-
اسی اثنا میں ، جگنو اور میں ندی کنارے چلتے ہوئے، پہاڑی کی اوٹ لیتے ہوئے، آہستہ آہستہ سامنے والی کھلی چٹان کے اوپر اگے ہوئے  برف  میں دبے صنوبر کے درختوں کے بائیں جانب قدرے کھلے  مقام کی جانب چل دیئے- برف کی تازہ نرمیاں   ہمارے  وجود کو سموچے شرمیلی دلہن کی طرح کسمسا کر سمٹ سی گئی پیروں تلے، اسکا نرم گیلا احساس وجود میں سنسنی سی دوڑا گیا اور میں ٹھٹھر کر رہ گیا-
جگنو، اسی ایک لمحے میں جزبز سا ہو کر میری جانب مڑا اور سرگوشی سی کہ، زار کیا خود سے پرے وجود کل پر کبھی غور کیا ہے؟ کبھی سوچا کہ، وہ جو سارے جہان میں جوڑے اتارتا ہے اور کبھی کسی بات میں کجی نہیں آنے دیتا ،کیا ایسی ذات بابرکات بھی خود کو تنہا رکھ سکتی ہے؟- کیا نور وحدت اور نور مبیں  (ﷺ) الگ الگ صفات کاملہ لئیے ہستیاں ہیں یا ان میں بھی کوئی محرم جیسا  رشتہ موجود ہے؟-
تبھی مجھے اسی لمحے دادا ابا کی کہی ہوئی بات سوچ کی تختی پر لکھی دکھائی دی ،جہاں درج  تھا کہ، حضور پاک(ﷺ) نے  ایک ملاقات میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے دریافت فرمایا کہ ،" آسمان پہ چمکتے اس سرخ ستارے کو دیکھا کبھی؟" ، فرمایا   پیامبر قدس (علیہ السلام) نے کہ برحق ،ہر ۷0000 سال بعد  ۷0000 سال دوری کے فاصلے پر ۷0000 دفعہ دیکھا ہے"- فرمایا  عین المبین(ﷺ) نے کہ قسم ہے وہ میری ہی ذات بابرکات(ﷺ) ہے-
میں اور جگنو اسی سوچ کے تانوں بانوں میں الجھے محو گفتگو تھے کہ جگنو تقریبا اچھل کر بولا کہ،زار  وہ   دیکھو آسمان پر   ،اور ھم دونوں   گھٹنوں بل زمیں پر پڑ سے گئے، وہاں چاند کی پپلائی ہوئی پھیکی روشنی میں سہمے ہوئے آسمان ارض پر "سرخ ستارا" آب و تاب سے چمک رہا تھا- جدھر نظر جا سکتی تھی تمام        کایئنات سر بسجود  نظر آئی ادباِ"-
میری ذات  بے ثبات کے پور پور سے یہ صدا آنے لگی کہ زار، جیسا کہ حضور پاک(ﷺ) نے ۱۴00 صدیوں تک کی تمام احول صحابہ کرام (رض) کے سامنے تفصیل پیش کیے مگر جب بھی  ۱۴ویں صدی کا آغاز اور باتوں کا زکر خیر آتا، آپ (ﷺ) خاموش ہو جاتے ، اور وقت حالات ،افکار امت اور مو جودہ نشانیوں کو دیکھیں تو  عجب نہیں کہ آپ اور میں ،بلکہ ہم سب خوشنصیب ٹھیریں کہ وہ لمحات مقدسہ عطا ہو کہ ھم بھی  حقیقی دیدار محبوبیئت(ﷺ) سے مستفیض ہوں- آمین
گر یہ سچ ہے ، تو با خدا ،  رب جلال و جمال کی قسم کہ رب نہ کبھی تنہا رہا نرہے گا وہ خود نور مبین(ﷺ) کا عاشق ہے اور یہ عشق مطہرہ  ازل سے ابد تک ہر گا ، وحدانئیت کے "رمض خفی" کے ساتھ- مگر آپ مجھکو، اب سے اس تارے کی تولید کا انتطار کرنا ہے، کالی عشق   کا ایک ادنی نمونہ بننا ہے ،ورنہ دھتکارے گئے تو نہ ادھر کے رہیں گے  نہ اس در مطہر(ﷺ) پاک کے  سگ خوش- 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں