جمعرات، 8 مئی، 2014

ایک گہری سوچ کی رات کے بعد، صبح نو کو اسلام والیکم ( آج سے پر کچھ نہ کچھ پیش خدمت رہے گا انشاء اللہ تعالی)

جیسے کہ بچہ، جس کی سلیٹ پہ کچھ نہیں ہوتا، اسکے من پہ جو لکھو بڑی آسانی سے لکھا جاتا ہے، وہی بچہ اچھی صحبت کا حامل رہے گا تو وہ نہ صرف خود کے بلکہ اپنے ماحول کے لئیے علامہ اقبال کا شاہیں ثابت ہو گا،
ورنہ نسبت کی دوری و مجہوری کسی کو عمر جیسا نام عطا ہونے کہ باوجود اپنی ناعاقبت اندیشی اور جہل کا ساتھ دینے کے عوض آخر کار ابو جہل قرار  دیا-
در لگتا ہے بعض دفعہ کہ میں خود کو نمایاں کرنے کے چکر میں کہیں کسی کے لئیے جہالت کا  لمحہ تو نہیں بن جاتا اور جسکے عوض اپنی دانست میں اچھا بننے کے بجائے مزید اندھیروں کا امیں نہ بن جاؤں- بس یہی سوچ  جب مجھے قرآن مجید کے اسرار آمیز حروف کے سامنے لے جاتی ہے تو وہیں جدھر مجھے جلال کبرئیا کا فروغ ڈرائے رکھتا ہے ،اسی لمحے رحمت کی انبساط مجھے کرم ے آنچل سے  سرگوشی کرتے یہ پیام دیتی ہے کہ ،" اے بنی آدم، تو مٹی کا ماٹی ہے، تو ہیست سے ہو کت نئیست کیلیئے آیا ہے، تیری ذات کی پھلجھڑیاں صرف دیکھاوا ہیں جبکہ الست کی " قالو بلی" کچھ اور ہی بات ہے اور اسکی انگرشیا یہاں کی منوکامنا نہیں پروت کرتی نی ان میں گیاں کہ وہ ایک سالک کو زمانے کی چرخی کا الٹا رخ دیکھا کر مجہور کرے-
انہی ساعتوں کے عمیق سندھان سے یری روز ہی تقریباُ علیک سلیک ہوتی ہے، وہ رنگ برنگ کے گیروی لباس اوڑھے ،چندر مکھی کی مانند گاوں کی پگڈنڈیوں پر ایک صبح کے جھونکے کی مانند ٹھنڈی مہکار راہ فکر میں چھوڑے جاتی ہے-
مگر کوئی یہ نہیں سمجھ سکا کہ چندر مکھی کے وجود زن کا پتو اسکے کنچن بدن کی اگیا کیونکر لیتا رہا اور کب وہ ایک سنتوش مایا سے اصلوب کی پرکشا دیتی ہوئی ایک ایسی دیا بن گئی جو باتی بھی خود اور روشنی بھی خود بنکر ، ڈھونڈ دھونڈ کر سنتاں کے گھپ اندھیروں سے من کے مسافروں کو راہ دیکھاتی رہتی ہے -
ہمارے ہاں تمتمے دار کرتوں ،بوسکی کی قمیض اور لاٹھے کا کلف کئیے ،لمبی داڑھی رکھے اور  عطر کی بوتل انڈیلے ایک قمقاری طرح کی سلائی آنکھوں میں میچے سرمے کی ،ایک مولوی کا عمل دخل عشق و اصل کی معرفت کےراستے میں سنگ میل رکھتا ہے ،جسکا علم مسجد کی قندیلوں سے ہوتا ہوا محراب اور پھر میناروں کی چونچ کی کلائی پر ختم ہو جاتا ہے،
اب یہاں مقصد اس ملا کی جگ ھنسائی نہیں ،بلکہ صرف یہ جانکاری لینا ہے کہ کیا میرا رب صرف مولوی کی مسجد کی کنجئیوں تک ہی مقید ہے؟- کیا میرے نبی پاک (ﷺ) کے مطہر فرماں جزدانوں کی زینت ہیں اور کیا مجھے ساری عمر رب کو کھوجنے کہ بجائے فقط " جنت" اور "جہنم" کا افکار جاننا ہے اور پھر کسی بھنبوڑی ہوئی ادھ کھائی لاش کی مانند کسی بے سرے گائیگ کی 
                                                                                                                       (طرح کلمہ پڑھ کر خود کو  جنت کی حوروں کا امین ٹھیرانا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔( جاری ہے


2 تبصرے:

  1. وعلیکم السلام
    درست کہا بزرگ نے اور آپ نے بھی اس کو دل کی آنکھ سے محسوس کیا ۔
    بے شک دنیا ہر کسی کو اپنی نگاہ سے دیکھتی ہے- نطر کی عینک پر غبار دنیا لگی ہو تو بندہ کو ہر طرف دھول ملے گی، وگرنہ،کانچ جیسے شفاف روح و من کو ہر ایک میں ایمان کی جلا ملے گی-
    خوش رہیں لکھتے رہیں

    جواب دیںحذف کریں
  2. دنیا کی نگاہ ور اپنی عینک کے درمیان حقیقت اور سچائی کا اک باریک سے پردہ بھی ہوتا ہے جسے بسا اوقات ہم اپنی انا کے زعم میں نظر انداز کر دیتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں