جمعرات، 8 مئی، 2014

زرخھاف سے مانگے گا


میں نے اس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں
جیسے ماہتاب کو انت سمندر چاہے 
جیسے سورج کی کرن سیپ کے دل میں اترے 
جیسے خوشبو کا ہوا رنگ سے ہٹ کر چاہے 
جیسے پتھر کے کلیجے سے کرن پھوٹتی ہے 
جیسے غنچے کھلے موسم سے حنا مانگتے ہیں
جیسے خوابوں میں خیالوں کی کماں ٹوٹتی ہے 
جیسے بارش کی دعا آبلہ با مانگتے ہیں
میرا ہر خواب مرے سچ کی گواہی دے گا
وسعتِ دید نے تجھ سے تری خواہش کی ہے 
میری سوچوں میں کبھی دیکھ سراپا اپنا
میں نے دنیا سے الگ تیری پرستش کی ہے 
خواہشِ دید کا موسم کبھی ہلکا جو ہوا
نوچ ڈالی ہیں زمانوں کی نقابیں میں نے 
تیری پلکوں پہ اترتی ہوئی صبحوں کے لئے 
توڑ ڈالی ہیں ستاروں کی طنابیں میں نے 
میں نے چاہا کہ ترے حسن کی گلنار فضا
میری غزلوں کی قطاروں سے دہکتی جائے 
میں نے چاہا کہ مرے فن کے گلستاں کی بہار
تیری آنکھوں کے گلابوں سے مہکتی جائے 
طے تو یہ تھا کہ سجاتا رہے لفظوں کے کنول
میرے خاموش خیالوں مین تکلم تیرا
رقص کرتا رہے ، بھرتا رہے خوشبو کا خمار
میری خواہش کے جزیروں میں تبسم تیرا
تو مگر اجنبی ماحول کی پروردہ کرن
میری بجھتی ہوئی راتوں کو سحر کر نہ سکی
تیری سانسوں میں مسیحائی تھی لیکن تو بھی
چارۂ زخمِ غمِ دیدۂ تر کر نہ سکی
تجھ کو احساس ہی کب ہے کہ کسی درد کا داغ
آنکھ سے دل میں اتر جائے تو کیا ہوتا ہے 
تو کہ سیماب طبیعت ہے تجھے کیا معلوم 
موسمِ ہجر ٹھہر جائے تو کیا ہوتا ہے 
تو نے اس موڑ پہ توڑا ہے تعلق کہ جہاں
دیکھ سکتا نہیں کوئی بھی پلٹ کر جاناں
اب یہ عالم ہے کہ آنکھیں جو کھلیں گی اپنی
یاد آئے گا تری دید کا منظر جاناں
زرخھاف سے مانگے گا ترے عہدِ محبت کا حساب
تیرے ہجراں کا دہکتا ہوا محشر جاناں
یوں مرے دل کے برابر ترا غم آیا ہے 
!جیسے شیشے کے مقابل کوئی پتھر جاناں 


4 تبصرے:

  1. دل سے اترے لفظ دل میں اترتے چلے گئے ۔ سمجھ نہیں آتا کہ محبوب کون ہے۔۔۔ جاناں یا سودائی ؟

    جواب دیںحذف کریں
  2. جذبوں کی شدّت کا بہترین اظہار..
    محبوب ،جاناں ہے یا سودائی :)

    جواب دیںحذف کریں
  3. عشق خود ایک سیمابی کیفیت ہوتی ہے اور ھب و محبوب دونوں ہر محاز ایقان پر لازم و ملظوم ٹھیرتے ہیں، نہ کوئی ملزم ہوتا نہ کوئی قاضی، فقط سب مسافر ہوتے-----خاموش محوئیت کے حامل مسافر-

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. لیکن ہر مسافر کی طلب ، جستجو اور منزل تک کا سفر مختلف ہوتا ہے .

      حذف کریں