ہفتہ، 24 مئی، 2014

بھلا کون ھے




میں جب یونیورسٹی میں اپنے ڈیپارٹمنٹ میں داخل ھوتا ھوں، تو سب سے پہلے میری نظر سٹوڈنٹ نوٹس بورڈ پر پڑتی ھے۔ وھاں عام طور پر کسی نہ کسی کو سالگرہ مبارک کہنے کے لئے کوئی نہ کوئی چارٹ سجا ھوتا ھے۔ میں اسے دیکھ کر مسکراتا ھوں، اور سوچتا ھوں کہ شاید کبھی میرے لئے بھی کوئی ایسا چارٹ لکھ سکے۔ 
پھر میرے پاؤں دائیں طرف مڑ جاتے ھیں، اور میں سیڑھیاں چڑھنے لگتا ھوں۔ میں جب ڈیپارٹمنٹ کی اوپر والی منزل پر پہنچتا ھوں، تو ایک تکلیف دہ منظر میری بینائی کا مذاق اڑانے لگتا ھے۔ سامنے دیوار پر لکھا ھوا ایک بے رحم لفظ جیسے میرے قدموں کی زنجیر بن کر مجھے روک سا لیتا ھے۔ ایک ایسا لفظ، جو مجھے شدید خوفزدہ کردیتا ھے، اور میں خود کو اس ماحول میں نا صرف اجنبی، بلکہ غیر محفوظ بھی محسوس کرنے لگتا ھوں۔
یوں لگتا ھے کہ اسے کسی نے مٹانے کی کوشش کی ھے، تبھی تو نہایت بڑے حروف میں لکھا ھونے کے باوجود بھی وہ لفظ واضح طور پر دکھائی نہیں دیتا، اور شاید اس پر میرے علاوہ کسی نے کبھی توجہ بھی نہ دی ھو۔ مگر وہ اپنی جگہ پر برسوں سے موجود ھے، اوراس معاشرے کی متروک اخلاقی قدروں کا مذاق اڑاتا رھتا ھے۔ میں چاھوں بھی تو اسے نظر انداز نہیں کرسکتا۔ وہ لفظ جیسے میرا گریبان پکڑ کر مجھے شہر بھر کی گلیوں، کوچوں اور بازاروں میں گھسیٹتا پھرتا ھے۔ میرے چہرے پر تھوکتا ھے، اور مجھے شدید ترین ذلّت کے احساس سے دوچار کرانے کے بعد ابدی جہنم کے کسی گڑھے میں دھکیل دیتا ھے۔
وہ لفظ ھے ‘‘کافر’’
خدا جانے کسی نے وہ لفظ کیوں لکھا، اور کس نے اسے ایسا لکھنے کا اختیار دیا؟ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ لفظ کس کو مخاطب کر کے لکھا گیا ھے؟
بھلا کون ھے، جو اس معاشرے میں کسی نہ کسی دوسرے کے لئے کافر نہیں ھے؟ 
بھلا کون ھے، جو خود کو ناجی فرقے سے وابستہ نہیں سمجھتا، اور کون ھے، جو دوسروں کو جہنم کا ایندھن نہیں گردانتا؟ 
ھم سب ھی کسی نہ کسی کے لئے کافر ھیں۔ گویا ھم نے اس تکفیر میں مساوات کا مظاھرہ کیا ھے۔ یہ الگ بات کہ تمام لوگ ‘کافر’ ھونے کے باوجود برابر کے‘ کافر’ نہیں ھیں، بلکہ کچھ لوگ دوسروں سے زیادہ بڑے‘ کافر’ سمجھے جاتے ھیں۔
میں ایک اذیت ناک سوچ میں گم ھو جاتا ھوں کہ میں اس کے علاوہ کر ھی کیا سکتا ھوں۔ 
میں یہاں سے بھاگ جانا چاھتا ھوں، مگر مجھے معلوم ھے کہ میں جہاں بھی جاؤں گا، وحشت اور خوف میرے تعاقب میں رھیں گے۔ میں اپنے ارد گرد دیکھتا ھوں، تو سب لوگ اپنی اپنی دنیا میں مست یوں بغیر رکے چلتے چلے جا رھے ھوتے ھیں، گویا انہیں اس لفظ کی کوئی پرواہ نہیں ھے۔ اور مجھے یوں لگنے لگتا ھے جیسے یہ لفظ کسی اور کے لئے نہیں، صرف اور صرف میرے لئے لکھا گیا ھے۔ 
میں بھاری قدموں سے آگے بڑھ جاتا ھوں اور وہ دیوار کہیں پیچھے رہ جاتی ھے۔ ھاں، دیوار تو پیچھے رہ جاتی ھے، مگر اس پر لکھا ھوا وہ یک لفظی بے رحم فتویٰ میرے دل میں ایک نوکیلے کیل کی طرح ھمیشہ کے لئے پیوست ھو کر رہ جاتا ھے۔
مجھے اپنے ارد گرد گزرنے والا ھرشخص بیک وقت اس لفظ کا لکھاری بھی لگنے لگتا ھے، اور اس لفظ کا مخاطب بھی۔

1 تبصرہ:

  1. تو میری نظر میں کافر ، میں تیری نظر میں کافر
    تیرا دین نفس شماری ، میرا دین نفس گدازی
    علامہ اقبال

    جواب دیںحذف کریں