بدھ، 28 مئی، 2014

حضرت شیخ رکن الدین العالم علیہ الرحمہ


حضرت شیخ رکن الدین العالم علیہ الرحمہ نے اپنے وصال سے پہلے اپنے ارادت مندت کے ہجوم سے خطاب کرت ہوئے فرمایا کہ
" دوستو! یہ دنیا ایک سارئے ہے۔ جو لوگ اس دنیا میں مسافروں کی طرح رہتے ہیں اور اس کی کسی چیز سے دل نہیں لگاتے تو جب داعی اجل سے بلاوا آتا ہے ہے تو وہ خوشی سے اپنے مالکِ حقیقی کی طرف سفر کرتے ہیں اور انہیں اس دنیا کو چھوڑنے کا ذرا بھی ملال نہیں ہوتا لیکن جو لوگ اس دنیا کو اپنا مسکن بنا دیتے ہیں انہیں اس دنیا کو چھوڑتے وقت ضرور تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ 
دوستو! 
میں تم ہی میں پیدا ہوا اور تم میں ہی جوان ہوا اور تم میں ہی رہ کر بڑھاپے کی منزلیں طے کر رہا ہوں۔ آج میں اس مقام تک پہنچ چکا ہوں جہاں سے انسان اپنے ملک کی طرف بڑھ جائے جہاں اس کا ابدی سکون موجود ہے۔ ممکن ہے کہ آج کے بعد ہم پھر نہ ملیں اس لیے اگر کسی کو مجھ سے کچھ لینا ہو تو وہ مانگ لے اور اگر کسی کو میری طرف سے تکلیف پہنچی ہو تو وہ اسی دنیا میں اپنا بدلہ چکا لے"
اللہ آپؒ پر رحمت نازل فرمائے اور ان کے صدقے ہماری مغفرت فرمائے۔ آمین




“اتفاق”




ارتقا پسندوں کا جهوٹا خدا “اتفاق” ہے۔
ڈارونیت پسندوں کے مطابق، زندگی کا زمین پے غیر معمولی طور پے مختلف قسم کا ہونا صرف ایک “اتفاق” کی وجہ سے ہے۔ یہ کہنے سے بچنے کے لئے کہ “اﷲ نے انہیں بنایا” ڈارونیت پسندوں نے اتفاق کو ہی اپنا خدا مان لیا ہے اور یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ اندھے اور ناقابلِ یقین واقعات نے اس شاندار اور حیران کن طور پر پیچیدہ زندگی کے نظام کی بنیاد رکھی ڈارونیت نے اس مضحکہ خیز اور سطحی نظرئے سے لوگوں کو اندھیرے میں رکھنا ممکن بنا لیا۔ جس طریقے سے پروفیسرز یونیورسٹیز میں لیکچرس دیتے ہیں اور سائنسدان اور اساتذہ جنہوں نے پڑھا ہے اور تحقیق کی ہےوہ ان بے ترتیب واقعات کو ایسے پیش کرتے ہیں جیسے کہ ان واقعات کو تخلیقی عقلمندی تھی اور سوچنے کے اور فیصلے لینے کے قابل تھے، اور جیسے وہ ہی تھے جنہوں نے ایسے غیر معمولی نظام پیدا کئے۔﴿معاذ اﷲ﴾
ارتقا پسندوں کا جهوٹا خدا “اتفاق” ہے۔
اتفاق ارتقا پسندوں کا جهوٹا خدا ہے، جسے سمجھا جاتا ہے کہ اس نے سب چیزوں کو پیدا کیا اور معجزات کرتا ہے۔ ڈارون کے سرسری نقطہ نظر کے مطابق، وقت اور اتفاق، عجیب طریقے سے ہر چیز میں زندگی لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہ غیر منطقی نظریہ یہ بتاتا ہے کہ اتفاق وہ کرلیتا ہے جو کہ انسان بھی نہیں کرسکتا اور ایک طرح سے سائنسدانوں اور ان کی لیبارٹریز سے کئی گنا زیادہ علم، صَلاحِیتیں اور وَسائِل رکھتا ہے۔ یقیناً،کسی بھی باخبر اور غور و فکر کرنے والے اور صحیح اور غلط کی پرکھ رکھنے والے شخص کے لئے اس دعوٰے کو صحیح ماننا ناممکن ہے۔ عالمی سطح پر اس نظرئے کی غیرمنطقیت اور بیوقوفی کو دنیا میں اچھالنے کے نتیجے میں ارتقا پسندوں نے “اتفاق” کا لفظ استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے۔ وہ یہ تصور کر رہے ہیں کہ دوسرے اتنے ہی غیر منطقی الفاظ استعمال کر کہ خود کو بیوقوف لگنے سے بچالینگے۔ چاہے وہ حادثہ، یا اتفاق، یا بے ترتیب واقعات کی بات کریں ، تب بھی وہ ایک ایسے منظرنامے کے بارے میں بات کر رہے ہیں جس میں غیر شعوری واقعات ایک متوازن، سڈول اور غیر معمولی طور پر خوبصورت زندگی والی دنیا پیدا کرتے ہیں۔ پر یہ دعٰوے ان کو مزید رحم کے قابل بنا دیتے ہیں۔
ڈارونیت پسند جو کہ زندگی کی ابتدا کو ارتقاء کی اصطلاحات میں بیان کرنا چاہتے ہیں یہ بتانے سے بھی قاصر ہیں کہ صرف ایک واحد پروٹین بھی اپنے آپ کیسے وجود میں آیا۔ یہ پہلی اور بہت اہم حقیقت ہےجو کہ ڈارونیت پسندوں کے دھوکے کے بارے میں جاننی چاہئے۔ ایک پروٹین کی بھی تشکیل کے بارے میں بتانے سے قاصر، ڈارونیت پسند واضح طور پردھوکہ دہی کا سہارالے رہے ہیں ۔ جو بھی من گھڑت کہانی وہ زندگی کی ابتدا میں بتاتے ہیں سب مصنوعی ہے۔جس طریقے سے یہ روشنی کی طرف آیا ہے اور جس طرح سے لاکھوں زندہ فوسلس جو کہ کئی سئو لاکھ سال بنا تبدیل ہوئے رہیں ہیں ڈارونیت کے خاتمے کو یقینی بنا دیا ہے۔


ماں، تم تو کہتی تھی


جب میری نانی مر گئی تو ماں اپنے اکلوتے چھوٹے بھائی کو اپنے گھر لے آئی۔ میرے نانا پہلے وفات پا چکے تھے، ماں کی شادی سے بھی بہت پہلے۔ یہی وجہ تھی کہ ماں اسے گھر لے آئی۔
کہتے ہیں میرا ماموں خصلت اور عادات و اطوار میں مثالی آدمی تھا، بے حد نیک اور بے ضرر، اتنا بے ضرر کہ سوئے ہوئے آدمی کو جگانا بھی اس کے نزدیک معیوب تھا۔ جیسا کہ سنتے آئے ہیں کہ نیک آدمیوں کی زندگی مختصر ہوتی ہے۔ میرے ماموں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ دو دن بخار ہوا اور تیسرے دن چل بسا۔
ماں رو رو کر بے حال ہو گئی۔ دوسرے دن بھائی کی قبر پر گئی تو شدت غم سے بے ہوش ہو کر گر گئی۔ ہماری دوسری رشتہ دار عورتیں یہ صورت حال دیکھ کر گھبرا گئیں اور انھوں نے چیخ و پکار شروع کر دی۔ خود میں بھی ان دنوں چھوٹی سی تھی، چنانچہ دہاڑیں مار کر رونے لگی۔
قبرستان کے چوکیدار شوضل کاکا نے شور سنا تو دوڑا آیا۔ اس کے ہاتھ میں ٹھنڈے پانی کا کٹورا تھا۔ ہماری ایک رشتہ دار عورت نے پورا کٹورا ماں پر انڈیل دیا۔ ماں کے کپڑے بھیگ گئے۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی۔ سفید برقع جسے وہ آدھا الٹا چکی تھی ،بکھرا پڑا تھا۔ لاش کی طرح زرد رنگ اور چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، ماں کی یہ حالت دیکھ کر میں دیوانوں کی طرح اِدھر اُدھر دوڑنے اور چیخ چیخ کر رونے لگی۔ مجھے ایسا لگا تھا کہ ماں بھی ماموں کی طرح مر چکی اور سفید کفن میں لپٹی ہوئی ہے۔ آج بھی ان لمحوں کی یاد آئے، تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور میری روح کانپ جاتی ہے۔
دو تین روز بعد جب ماں دوبارہ ماموں کی قبر پر گئی تو میرے اور ہماری نوکرانی دلاجان بی بی کے علاوہ کوئی ساتھ نہ تھا۔ اچانک ماں کی حالت پھر بگڑ گئی اور وہ بے ہوش ہوگئی۔ قبرستان کا چوکیدار شوضل کاکا دوبارہ ہماری مدد کو پہنچا اور دلاجان بی بی سے کہنے لگا’’گھر والوں کو کہہ دو، بیگم صاحبہ کو قبرستان نہ آنے دیں۔ خواہ مخواہ روگ لگ جائے گا۔ اگر بہت ہی مجبوری ہے، صبر نہ آئے، تو چند روز ناغہ کرنے کے بعد آئے۔ آہستہ آہستہ غم ہلکا ہو جائے گا۔‘‘
ماں ہوش میں آئی تو دلاجان بی بی نے شوضل کاکا کی بات دہرائی۔ ماں رونے لگی، بولی:
’’اکلوتے بھائی کا غم بھی کبھی کم ہوگا؟ ایسی جوانمردگی کی موت، کلیجا کٹ کٹ جاتا ہے۔ بے چارہ دلہن کے چہرے کا گھونگھٹ بھی نہ اٹھا سکا۔ ہائے موت کو بھی ترس نہ آیا!‘‘ ماں پھر رونے لگی۔ ’’باپ کا خون اور ماں کی آخری نشانی۔ موت کے بعد بھی ماں کے کیا کیا ارمان تھے، پختہ قبر بنانے کی آرزو اور اس پر سرخ سبز جھنڈے لہرانے کی حسرت، لیکن خدا جانے ایسا ہواکیوں نہیں !‘‘
اب کوئی دن ایسا نہ جاتا کہ ماں قبرستان نہیں جاتی۔ بھائی کی قبر پر ہاتھ رکھ کر زاروقطار روتی۔ میں حیران ہوتی کہ آنسوئوں کا یہ رواں دواں کارواں ختم کیوں نہیں ہوتا؟ یہ ڈھیروں پانی کہاں سے آتا ہے۔ وہ پھر قرآن مجید کھولتی، پڑھتی اور ہچکیاں لے لے کر تلاوت کرتی۔ آنسو تھے کہ پھر بھی نہ تھمتے۔ لیکن احتیاط کرتی کہ بہتے آنسو قرآن کے صفحات کے بجائے دائیں بائیں گریں۔
وہ پھر پنج سورہ لے کر جانے لگی۔ اب میں اور ماں ہی قبرستان جاتی تھیں۔ پھر آہستہ آہستہ قبر پر جانا کم ہونے لگا۔ جمعرات کے جمعرات اور پھر بتدریج مہینے دو مہینے میں ایک آدھ بار، یوں ایک سال گزر گیا۔ اب شب قدر یا عید آتی تو ماں ماموں کی قبر پر چلی جاتی۔ پھر ایک وقت آیا میں اس سے کہتی’’ماں، ماموں کی قبر پر نہیں جانا؟ اب تو ۲؍ سال بیت گئے ہیں۔‘‘
تب ماں چونکتی، ٹھنڈی آہ بھرتی اور کہتی’’ہاں بیٹی! اس جواں مرگ کو مرے ۲؍ سال ہو گئے۔ زندگی بھی کیا ہے، ۲ ؍ سال آنکھ جھپکتے گزر گئے جیسے کل ہی وہ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوا تھا۔‘‘
ماں کی آنکھیں ڈبڈبا جاتیں۔ تب مجھے وہ وقت یاد آ جاتا جب ماں قبر پر دہاڑیں مارتے ہوئے بے ہوش ہو جاتی تھی۔ کتنافرق تھا تب میں اور اب میں…!
پھر وہ وقت بھی آگیا کہ ماں نے قبرستان جانا بالکل ہی ترک کر دیا۔ اسے یاد ہی نہ رہتا، فرصت بھی نہ ملتی۔ اگرچہ میں چھوٹی تھی مگر مجھے اب تک یاد ہے کہ اس سال بہت بارشیں ہوئی تھیں۔ شوضل کاکا نے یہ خبر پہنچائی کہ ماموں کی قبر زمین میں دھنس گئی اور تختے ٹوٹ گئے ہیں۔ مجھے اس خبر سے یوں فکر ہوئی کہ کہیں ماں کو پھر دورہ نہ پڑ جائے۔ مگر کچھ بھی نہیں ہوا۔ ماں پر اس خبر نے کوئی اثر نہ کیا۔
میرے بھائی نے کہا ’’ماں تم کہو، تو کسی کو ساتھ لوں اور ماموں کی قبر ٹھیک کر دوں؟‘‘
ماں نے کسی جذبے کے بغیر سرد لہجے میں کہا ’’کیچڑ اور پانی میں کیا اپنے آپ کو دق کرو گے۔ شوضل کاکا سے کہہ دو، مزدور لگا کر ٹھیک کر لے۔‘‘
پھر اچانک ابا کا تبادلہ ہوگیا۔ہم سب عزیزوں، رشتے داروں اور دوستوں سے گلے ملے،دعوتیں ہوئیں۔ لیکن کسی کو یاد نہ رہا کہ ماموں کی قبر پر دو پھول ہی ڈال آئیں۔ یوں تبادلے ہوتے رہے، وقت گزرتا رہا۔ دن مہینوں میں اور مہینے برسوں میں بدلتے گئے۔ ابا کو پنشن مل گئی اور ہم گائوں واپس آگئے۔
میرا خیال تھا، وطن واپس ہوتے ہی ماں فوراً ماموں کی قبر پر جائے گی۔ میں انتظار میں تھی۔ ہفتہ گزر گیا، ۲؍ ہفتے گزر گئے، مہینا گزر گیا، ۲؍ مہینے گزر گئے۔ مگر کسی کو خیال نہ آیا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے ماں سے کہا ’’ماں قبرستان نہیں جائو گی؟‘‘
ماں نے مجھے اس طرح دیکھا جیسے ذہن پر زور ڈال کر کچھ یاد کر رہی ہو۔ پھر بولی’’ہاں چلے جائیں گے نا! مگر ابھی اپنے پرایوں کی دعوتیں ختم نہیں ہوئیں۔ سامان بھی اِدھر اُدھر بکھرا پڑا ہے۔ ذرا سانس لے لیں پھر جائیں گے۔‘‘
لیکن میں نے اصرار کیا ’’نہیں ماں، آج جائیں گے ماموں کی قبر پر۔‘‘
ماں چند لمحے غیرارادی طور پر مجھے دیکھتی رہی اور پھر آخر چل پڑی۔ ہم نے حیرت سے پھیلے قبرستان کو دیکھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اب مزید ایک قبر کی گنجائش نہیں۔ رکھ کے درخت بھی تقریباً ختم ہوگئے۔ وہ چھوٹا سا میدان بھی نظر نہیں آ رہا تھا جس میں جنازے کی نماز پڑھی جاتی تھی۔
ماموں کی قبر کے قریب ایک چھوٹا سا درخت تھا، وہ بھی نظر نہیں آیا۔ تلاش کے باوجود ماموں کی قبر شناخت نہ ہو سکی۔ ماں نے اپنا سفید برقع پیچھے کی طرف ڈال لیا تھا جس کے زمین کو چھوتے کناروں سے قبرستان کی سوکھی گھاس اور کانٹے الجھ گئے۔ ماں نے برقع اتار کر ایک طرف رکھ دیا اور بولی’’اب تو بیچارے کی قبر کی ڈھیری بھی نہیں ملتی۔ نام کیا مٹا، نشان بھی مٹ گیا۔ آئو واپس چلیں۔‘‘
ماں واپس ہونے لگی۔ اس کا یہ رویہ مجھے عجیب ہی نہیں برا بھی لگا۔ میری بچپن کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ وہ سب کچھ یاد آگیا کہ ماموں کی موت پر ماں کی کیا حالت ہوئی تھی۔ میں نے حیرت سے سوچا ’’یااللہ، یہ وہی عورت ہے جو چند سال پہلے بھائی کی موت پر خون کے آنسو روتی رہی تھی اور کئی بار بے ہوش ہوئی۔ اب اس کا دل پتھر کا ہوچکا ہے۔‘‘
میں نے اس سے کہا ’’ماں، تم تو کہتی تھی، ماموں کی قبر پکی بنوائوں گی!‘‘
’’ہاں بیٹی! لیکن اس سے کیا فرق پڑتا؟ میں سونے کی قبر بھی بنوا دیتی مگر میرے بعد کون تھا کہ اسے یاد رکھتا اور پھر ہمیں بھی ایک دن مٹی ہوجانا ہے۔ نشان تک باقی نہیں رہتا۔‘‘
ماں واپسی کا ارادہ کر رہی تھی، مگر میرا دِل نہیں مانا۔ ماں کو وہیں چھوڑ کر میں چوکیدار کی کوٹھڑی کی طرف چل پڑی۔ سوچ رہی تھی، شوضل بابا زندہ بھی ہوں گے یا نہیں؟ اسی لمحے ایک سفید باریش آدمی کو دیکھا جو ہڈیوں کا چھوٹا سا متحرک ڈھانچہ تھا۔ فوراً خیال آیا کہ یہی شوضل بابا ہوگا؟
قریب پہنچی اور غور سے دیکھا تو وہی تھا۔ پوچھا! ’’بابا! اگر یاد ہو، بہت عرصہ ہوا ایک نوجوان اس قبرستان میں دفن ہوا تھا۔ صبح اس کی بہن قبر پر آتی اور روتے روتے بے ہوش ہو جاتی۔ مجھے یاد ہے، آپ نے اسے آنے سے منع کیا تھا کہ خواہ مخواہ روگ لگ جائے گا۔ مگر اب اس نوجوان کی قبر نہیں ملتی؟‘‘
اس کے بعد میں نے شوضل بابا کو اپنے باپ کا نام بتایا اور یہ بھی کہ وہ میرے ماموں کی قبر تھی۔شوضل بابا نے اوپر سے نیچے دیکھ کر میرا جائزہ لیا، پھر اطمینان سے بولا:
’’بیٹی! یہاں بہت سی مائیں اور بہنیں بھائیوں اور بیٹیوں کی قبروں پر بے ہوش ہوتی رہی ہیں۔ یہ سب قبریں اورمٹی کی ڈھیریاں جو آپ کو نظر آتی ہیں، ان میں دفن پیاروں کے زخمی دلوں کا درد آنسوئوں کی شکل میں بہتا رہا ہے۔ پھر دھیرے دھیرے وقت کے دھاگوں نے ان گہرے زخموں کو رفو کر دیا۔ اشکوں کی جگہ آہوں نے لے لی۔ پھر یہ آہیں بھی وقت کی آندھی اڑا کر لے گئی۔ وہ لوگوں کے دلوں سے اپنے پیاروں کی یادیں بھی سمیٹ کر لے گئی۔ وقت کی یہی آندھی ان قبروں پر بھی گزری جس نے انھیں مٹی کی ڈھیریوں میں تبدیل کردیا۔ پھر ایک وقت آئے گا یہ ڈھیریاں بھی ناپید ہو جائیں گی اور پھر لوگ پیاروں کی قبروں پر ہل چلا دیں گے…‘‘
خدا جانے شوضل بابا اور کیا کچھ کہتا رہا، میں سن نہ سکی کیونکہ ماں بلند آواز سے مجھے بلا رہی تھی’’آئو بیٹی، بہت دیر ہو گئی ہے۔‘‘میں نے بے بسی سے ماں کی طرف دیکھا اور چل پڑی…


منگل، 27 مئی، 2014

ایک کہانی


ایک کہانی مثنوی مولانا روم کی ہے کہ کوئی چور تھا ، تو اس کے اندرکچھ پیسہ بنانے کی خواھش پیدا ہوئی، کیونکہ وہ اپنی محبوب بیوی کو کچھ دینا چاہتا تھا یا اپنی ذات کے لئے رکھنا چاہتا تھا -
اس نے ایک رات ایک گھر کے روشن دان میں سے کمرے میں داخل ہونے کی کوشش کی کہ یہ اچھا گھر ہے ،اور مجھے یہاں سے کوئی مال و مطاع ملے گا ، لیکن جب وہ اتنا اونچا چڑھا ، اور روشن دان کے اندر سے گزرنے کی کوشش کی ، تو وہ روشن دان جس کا چوکھٹا بظاہر ٹھیک نظر آتا تھا ، ڈھیلا لگا تھا , وہ بمع چوکھٹے کے اندر کے فرش پر سر کے بل آگرا ، اور اس کو سخت چوٹیں آئیں ، چنانچہ اس نے وہ چوکھٹا اٹھایا اور قاضی وقت کے پاس شکایات کے لئے لے گیا -
دیکھیں کیا کمال کے آدمی تھے - اس نے کہا ، جناب دیکھیں میں چوری کرنے کے لئے وہاں گیا تھا - یہ کیسا نالائق مستری ہے کہ جس نے ایسا چوکھٹا بنایا کہ یہ ٹوٹ گیا ہے ، اور کرچیاں کرچیاں ہو گئیں ہیں تو اس کو سزا ملنی چاہئے -
قاضی وقت نے کہا ، یہ تو واقعی بری بات ہے - اس لکڑی بیچنے والے کو بلایا گیا ، چنانچہ وہ پیش ہوگیا - اس نے کہا ، جناب اس گھر کی کھڑکی تو میں نے بنائی تھی - اس سے کہا گیا تم نے ایسا قسم کی ناکارہ لکڑی لگائی - اس نے کہا جناب اس لکڑی کو بھی دیکھ لیں کسی سے ٹیسٹ کروائیں اس میں کوئی نقص نکلا تو میں ذمیدار ہوں -
حضور بات یہ ہے کہ اس میں خرابی ہماری لکڑی کی نہیں اس ترکھان کی ہے جس نے یہ چوکھٹا ڈائیمنشن کے مطابق نہیں بنایا -
انھوں نے ترکھان یا بڑھئی کو بلایا ہے وہ پیش ہوگیا - ترکھان نے کہا میں نے چوکھٹا بلکل ٹھیک بنایا ہے یہ میرا قصور نہیں آپ ماہرین بلوا لیں وہ بتادیں گے میرے چوکھٹے میں کوئی خرابی نہیں - میں یقین سے کہتا ہوں یہ چوکھٹا بلکل ٹھیک ہے - راج معمار جس نے اس کو فٹ کیا تھا یہ ساری کوتاہی اس کی ہے چنانچہ راج معمار کو بلوایا گیا وہ عدالت میں پیش ہوگیا -
قاضی وقت نے کہا ، اے نالائق آدمی بہت اعلا درجے کا چوکھٹا بنا ہوا ہے ڈائی مینشن اس کی درست ہے تو نے کیوں "موکھا " اس کا ڈھیلا بنایا ، تو نے صحیح طور پر اسے فٹ کیوں نہیں کیا -
اس نے سوچا واقعی عدالت ٹھیک پوچھ رہی ہے - چوکھٹے میں اور دیوار میں فاصلہ تو ہے - اس نے کہا حضور بات یہ ہے ، مجھے اب یاد آیا ، جب میں چوکھٹا لگا رہا تھا تو میں نے باہر سڑک پر دیکھا اس وقت ایک نہایت خوبصورت عورت اعلا درجے کا لباس پہنے ، بے حد رنگین لہنگا اور بے حد رنگین دوپٹہ اوڑھے جا رہی تھی ، مزے سے اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی ، تو میری توجہ اس کی طرف ہو گئی - جب تک وہ سڑک پر چلتی رہی میں اس کو دیکھتا رہا میں پوری توجہ نے دے سکا اور چوکھٹے کو صحیح طرح سے نہ لگا سکا -
انھوں نے کہا اس عورت کو بلاؤ ، عورت کو سب تلاش کرنے لگے ، شہر میں سب جانتے تھے جو چھمک چھلو تھی کہ وہ وہی ہو گی سو عدالت میں پیش کر دیا گیا -
پوچھا گیا کیا تم یہاں سے اس روز گزری تھیں ؟ کہا ہاں میں گزری تھی - اس نے کہا تم نے ایسا لہنگا پہنا ، ایسا غرارہ پہنا تھا ، تو کیوں پہنا تھا ؟
حضور بات یہ ہے کہ میرے خاوند نے مجھ سے کہا یہ تم کیا ڈل کلرز پہنتی ہو - یہ کچھ اچھے نہیں لگتے ، تمہارے رخ زیبا کے اوپر یہ کپڑے سجتے نہیں ہیں - بہت اعلا قسم کے شوخ ، اور بھڑکیلے قسم کے پہنو -
عدالت نے کہا اس خاوند کو حاضر کیا جائے ، چنانچہ وہ اس کے خاوند کو پکڑ کر لے آئے ، عدالت کے سامنے پیش کر دیا - وہ خاوند وہی شخص تھا ، جو روشن دان سے چوری کرنے کے لئے اترا تھا-
اس کی خواہش میں وہ خود کھڑا تھا - اتنا چکر کاٹ کر آدمی کو پتا نہیں چلتا کہ اس کے ساتھ کیا گزر رہی ہے - وہ کہاں پر اپنی ہی خواہش ، اپنی ہی آرزو کے درمیان کھڑا تھا -
از اشفاق احمد زاویہ ١ صفحہ ٢٥٨


اتوار، 25 مئی، 2014

اگر جیو بند کر دیا گیا


اگر جیو بند کر دیا گیا تو یہ نہ صرف پاکستان کے غیور عوام بلکہ عالم اسلام کی ایک عظیم فتح ہو گی اس فتح کا شمار محمود غزنوی اور محمد بن قاسم کی فتوحات کے برابر سمجھا جائے گا۔ 

یہ فتح یہود و ہنود اور نصاریٰ کے منہ پر تھپڑ ہو گا کہ دیکھو ہم ابھی تک ایک زندہ قوم ہیں اور اپنے اندر پلنے والی کالی بھیڑوں کو دودھ میں سے مکھی کی طرح اٹھا کر پھینک دیتے ہیں۔

جیو کی بندش کے فوراً بعد عمران خان، زاید حامد اور مبشر لقمان صاحب کو سونے جواہرات کا تاج پہنا کر چودہ گھوڑوں کی بگھی میں بٹھال کر ایک جلوس نکالا جائے 

جس میں ہر محب وطن پاکستانی جو جیو اور اس کے حواریوں کو غدار سمجھتے ہیں شریک ہوں گے۔

یہ عظیم الشان جلوس جشن فتح مناتا ہوا اسلام آباد سے کراچی کی طرف سفر کرے گا اور مزار قائد پر اختتام پذیر ہو گا۔ 

اس دن کراچی شہر میں کوئی ٹارگٹ کلنگ بھی نہیں ہو گی کیونکہ تمام ٹارگیٹ کلرز بھی جیو سے نفرت کا اظہار کرنے اس جلوس میں شریک ہوں گے۔ (

وہ ٹارگیٹ کلر ہی تو ہیں، جیو کی طرح غدار تھوڑی ہیں)۔

تاریخ میں اس دن کو یوم نجات سے تعبیر کیا جائے گا اور آنے والی نسلیں پاکستان کی تاریخ میں اس عظیم واقعہ کے بارے میں پڑھ کر اپنی تاریخ پر فخر سے سر اٹھا کر جی سکیں گی۔

جیو کی بندش کے بعد پاکستان کی چھیاسٹھ سالہ تاریخ کا ایک کالا باب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہو جائے گا۔ 

یہی وہ ادارہ تھا جس کی وجہ سے کشمیر ہمارے ہاتھ سے نکل گیا اور پاکستان دو لخت ہو گیا، یہی وہ ادارہ تھا جس نے ایوب خان کے خلاف عوام میں نفرت پھیلائی جس کی وجہ سے ان کا سنہری عہد آمریت اختتام پذید ہو گیا۔ 

یہی وہ ادارہ تھا جس نے امیر المومنین ضیا الحق کے طیارے کو ہوا میں پھاڑنے کی سازش تیار کی۔ جمہوریت جیسی لعنت کو ملک پر مسلط کرنے کا سہرا بھی ان ہی صحافیوں کے سر جاتا ہے۔

پھر آپ وہ دن بھول سکتے جب محسن الملک جناب پرویز مشرف صاحب کے خلاف اس ادارے نے مہم چلائی ۔۔۔ 

بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ اسی ادارے کے ایک صحافی نے پرویز مشرف کے کان بھرے تھے کہ وہ چیف جسٹس افتخار چوہدری سے استعفے کا مطالبہ کریں وہ بھی وردی پہن کر، جبکہ دوسری طرف افتخار چوہدری صاحب کو چڑھایا کہ خبردار کبھی استعفی نہ دینا 

اور مشرف کے خلاف مہم چلا دینا۔ وکیلوں نے اس ملک میں انتشار کی جو تحریک چلائی تھی اس کے پیچھے بھی یہی لوگ تھے۔

اب ملک میں صرف محب وطن صحافیوں اور سیاست دانوں کا راج ہوگا۔ سچ کا بول بالا ہو گا، کوئی عوام کو جھوٹی خبریں دے کر ملک کے اداروں کے خلاف نفرت نہیں پھیلا سکے گا۔ 

انصاف سستا ہو جائے گا عمران خان اپنی اسلام آباد والی کوٹھی میں ایک گھنٹہ لگوا دیں گے جسے کوئی بھی سائل آ کر بجا سکے گا اور جلد اور سستا انصاف حاصل کر سکے گا!

شیر اور بکری ایک گھاٹ میں پانی پیئیں گے ملک میں اتنی زیادہ بجلی کی پیداوار ہو جائے گی کہ بچے بجلی کے گولے ہاتھوں میں لے کر گھومیں گے 

اور ایک دوسرے پر برف کے گولوں کی طرح ماریں گے۔ 

مسلمانوں کو بہکانے والا میڈیا ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جائے گا لہذا ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا. 

مسجدیں نمازیوں سے بھر جائیں گی۔ ملک میں زکوۃ دینے والے تو ہوں گے لیکن لینے والا کوِئی نہ ہو گا۔

ہاں اور جو اس ادارے کے بند کرنے سے آٹھ دس ہزار آدمی بے روزگار ہوں گے تو میری رائے کے مطابق تو انہیں طالبان کی غلامی میں دے دینا چاہیے تاکہ لوگ غیرت حاصل کر سکیں اور انہیں پتہ چل سکے کے غدار کا کیا انجام ہوتا ہے!

جیو کے مارننگ شو بند ہونے کے بعد تمام چینلز پر خواتین با حجاب پروگرام کریں گی وہ خواتین جنھیں خصوصی طور پر ناچنے گانے کیلئے بلایا جاتا ہے 

تو یہ تائب کر کے سچی مسلمان اور پاکستانی بن جائیں گی۔

جیو کی چھوڑی ہوئی ریٹنگز تمام چینلز مال غنیمت کے طور پر آپس میں بانٹ لیں گے مبشر لقمان صاحب جن کی خوبصورتی کا راز یہ ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور حسینوں کے جھرمٹ میں رہنا پسند کرتے ہیں، 

صحافیوں اور صحافت کیلئے ایک ضابطہ اخلاق طے کریں گے اور ہر صحافی کو اپنے ہاتھ سے دستخط کر کے محب وطن ہونے کی سند جاری کریں گے۔ 

جبکہ ہر دل عزیززید حامد ایک اسلامی لشکر تشکیل دیں گے جس کی بعد میں طالبان بھی حمایت کر دیں گے جو پہلے ہندوستان اور پھر یورپ اور امریکا کو فتح کرے گا۔


بلڈی ٹیررسٹ !!!!!!



اسکو مہنگی گھڑیاں اور فیشن ایبل لباس پہننے کا بہت شوق تھا انگلش حددرجہ اچھی تھی کیوں نہ ہوتی ساوتھ
افریقہ کے اعلی اداروں میں اس نے تعلیم حاصل کی تھی ٹائی ،کوٹ پینٹ اسکا پسندیدہ لباس تھے لیکن انقلاب ایکدم ہی بپا ہوگیا ۔ وہ ٹرین کے ڈبے میں چڑھا اور یکدم دو گارڈز نے اسے دبوچ لیا اس نے انگلش میں اپنا مدعا بیان کرنے کی بہت کوشش کی لیکن گارڈز کے ایک نہ سنی اور اسے "بلڈی انڈین" کا خطاب دیتے ہوئے ٹرین کے ڈبے سے جو کے انگریز کللکٹر کے لیے مخصوص تھا باہر پلیٹ فارم پر پھینک دیا ۔
موہن داس اٹھا اردگرد کے لوگوں کے لیے یہ معمول کی بات تھی موہن داس نے ایک نظر اپنی ٹائی ،کوٹ ،پینٹ پر ڈالی اسے معلوم ہوگیا کہ جسے وہ فیشن سمجھتا ہے وہ دراصل غلامی کی ایسی زنجیر ہے جس سے وہ دامن نہیں چھڑا سکتا ۔ اس نے اپنے غصے کا اظہار گالیاں دیکر نہیں کیا نہ مقدمہ کرکے ۔ اس نے ٹائی ، کوٹ ،پینٹ اتار کر ایک طرف رکھ دیا اور موہن داس سے گاندھی بن گیا ۔ انگریز نے اسے ٹرین کے ڈبے سے باہر پھینکا تھا اس نے ایک چادر لپیٹ کرانہیں ہندوستاں سے باہر پھینکنے کی مہم شروع کردی !!
گاندھی کے طریق کار سے گاندھی کی تعلیمات سے بلاشبہ اختلاف ممکن ہے لیکن گاندھی کے جذبے سے انکار نہیں ہوسکتا ! آج مسلمان ہیں کہ دنیا کی ٹرین سے 'بلڈی ٹیررسٹ" کا خطاب دیکر نیچے پھینکے جارہے ہیں ۔ یہ بہترین انگلش بھی بول لیں انکے جیسا لباس و رہن سہن بھی اختیار کرلیں یہ جب بھی رسول عربی کا نام لیتے ہیں انکی نظر میں بلڈی ٹیررسٹ ہی ٹہرتے ہیں اور اٹھا کر باہر پھینک دیئے جاتے ہیں یہ آکسفورڈ یا کیمرج سبے بھی پڑھ آئیں لیکن اگر انہوں نے داڑھی رکھ لی ،نماز پڑھنی شروع کردی کچھ مغربی طورطریقوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تو لندن جیسا ملک ذاکر نائیک جیسے بندے پر پابندی لگانے سے باز نہیں آئے گا ! اور کینڈا بھی ویزہ دینے سے انکاری ہوگا !
کچھ لوگوں نے سمجھ لیا کہ یہ غلامی کا ناپاک لباس ہے جو کے تہذیب و جمہوریت کے پردے میں ہمیں پہنایا گیا ہے انہوں نے مسکرا کر اسکو اتارا اور بلڈی ٹیررسٹ کا خطاب ہنس کر قبول کرلیا ۔ کچھ وہ ہیں جنکو اس خطاب سے ڈر لگتا ہے لباس وہ بھی اتارنا چاہتے ہیں لیکن "عدم اہنسا" کے فلسفے پر کاربند ہیں مسئلہ یہ ہے کہ انکے پاس فلسفہ تو ہے گاندھی ایک بھی نہیں ہے جو چاہے بندوق نہ اٹھائے لیکن اپنا سب کچھ لٹا دے



ہفتہ، 24 مئی، 2014

میری تائی کہا کرتی تھیں

 کہ تم لوگوں کے منہ بند نہیں کر سکتے وہ جو چاہیں گے کہیں گے ۔ پھر لوگوں کے ذہنوں پر کسی کا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا ۔ صرف اپنے ذہن پر ہوتا ہے اور بیوقوف لوگ اپنے ذہن پر کنٹرول کے بجائے دوسروں کے ذہنوں پر طاقت آزمائی شروع کر دیتے ہیں ۔
جب آپ کو یہ بات سمجھ آ گئی تو پھر آپ کو لوگوں کی تنقید اور تبصرہ کبھی بھی تکلیف نہیں دے گا ۔
اشفاق احمد بابا

بھلا کون ھے




میں جب یونیورسٹی میں اپنے ڈیپارٹمنٹ میں داخل ھوتا ھوں، تو سب سے پہلے میری نظر سٹوڈنٹ نوٹس بورڈ پر پڑتی ھے۔ وھاں عام طور پر کسی نہ کسی کو سالگرہ مبارک کہنے کے لئے کوئی نہ کوئی چارٹ سجا ھوتا ھے۔ میں اسے دیکھ کر مسکراتا ھوں، اور سوچتا ھوں کہ شاید کبھی میرے لئے بھی کوئی ایسا چارٹ لکھ سکے۔ 
پھر میرے پاؤں دائیں طرف مڑ جاتے ھیں، اور میں سیڑھیاں چڑھنے لگتا ھوں۔ میں جب ڈیپارٹمنٹ کی اوپر والی منزل پر پہنچتا ھوں، تو ایک تکلیف دہ منظر میری بینائی کا مذاق اڑانے لگتا ھے۔ سامنے دیوار پر لکھا ھوا ایک بے رحم لفظ جیسے میرے قدموں کی زنجیر بن کر مجھے روک سا لیتا ھے۔ ایک ایسا لفظ، جو مجھے شدید خوفزدہ کردیتا ھے، اور میں خود کو اس ماحول میں نا صرف اجنبی، بلکہ غیر محفوظ بھی محسوس کرنے لگتا ھوں۔
یوں لگتا ھے کہ اسے کسی نے مٹانے کی کوشش کی ھے، تبھی تو نہایت بڑے حروف میں لکھا ھونے کے باوجود بھی وہ لفظ واضح طور پر دکھائی نہیں دیتا، اور شاید اس پر میرے علاوہ کسی نے کبھی توجہ بھی نہ دی ھو۔ مگر وہ اپنی جگہ پر برسوں سے موجود ھے، اوراس معاشرے کی متروک اخلاقی قدروں کا مذاق اڑاتا رھتا ھے۔ میں چاھوں بھی تو اسے نظر انداز نہیں کرسکتا۔ وہ لفظ جیسے میرا گریبان پکڑ کر مجھے شہر بھر کی گلیوں، کوچوں اور بازاروں میں گھسیٹتا پھرتا ھے۔ میرے چہرے پر تھوکتا ھے، اور مجھے شدید ترین ذلّت کے احساس سے دوچار کرانے کے بعد ابدی جہنم کے کسی گڑھے میں دھکیل دیتا ھے۔
وہ لفظ ھے ‘‘کافر’’
خدا جانے کسی نے وہ لفظ کیوں لکھا، اور کس نے اسے ایسا لکھنے کا اختیار دیا؟ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ لفظ کس کو مخاطب کر کے لکھا گیا ھے؟
بھلا کون ھے، جو اس معاشرے میں کسی نہ کسی دوسرے کے لئے کافر نہیں ھے؟ 
بھلا کون ھے، جو خود کو ناجی فرقے سے وابستہ نہیں سمجھتا، اور کون ھے، جو دوسروں کو جہنم کا ایندھن نہیں گردانتا؟ 
ھم سب ھی کسی نہ کسی کے لئے کافر ھیں۔ گویا ھم نے اس تکفیر میں مساوات کا مظاھرہ کیا ھے۔ یہ الگ بات کہ تمام لوگ ‘کافر’ ھونے کے باوجود برابر کے‘ کافر’ نہیں ھیں، بلکہ کچھ لوگ دوسروں سے زیادہ بڑے‘ کافر’ سمجھے جاتے ھیں۔
میں ایک اذیت ناک سوچ میں گم ھو جاتا ھوں کہ میں اس کے علاوہ کر ھی کیا سکتا ھوں۔ 
میں یہاں سے بھاگ جانا چاھتا ھوں، مگر مجھے معلوم ھے کہ میں جہاں بھی جاؤں گا، وحشت اور خوف میرے تعاقب میں رھیں گے۔ میں اپنے ارد گرد دیکھتا ھوں، تو سب لوگ اپنی اپنی دنیا میں مست یوں بغیر رکے چلتے چلے جا رھے ھوتے ھیں، گویا انہیں اس لفظ کی کوئی پرواہ نہیں ھے۔ اور مجھے یوں لگنے لگتا ھے جیسے یہ لفظ کسی اور کے لئے نہیں، صرف اور صرف میرے لئے لکھا گیا ھے۔ 
میں بھاری قدموں سے آگے بڑھ جاتا ھوں اور وہ دیوار کہیں پیچھے رہ جاتی ھے۔ ھاں، دیوار تو پیچھے رہ جاتی ھے، مگر اس پر لکھا ھوا وہ یک لفظی بے رحم فتویٰ میرے دل میں ایک نوکیلے کیل کی طرح ھمیشہ کے لئے پیوست ھو کر رہ جاتا ھے۔
مجھے اپنے ارد گرد گزرنے والا ھرشخص بیک وقت اس لفظ کا لکھاری بھی لگنے لگتا ھے، اور اس لفظ کا مخاطب بھی۔

"عورت کا دل


"عورت کا جو دل ہوتا ہے آدھا شوہر کی محبت سے بھرا ہوتا ہے اور آدھا اولاد کی محبت سے اور وہ اس محبت میں اتنی جہاں دیدہ ہوتی ہے کہ تمام عمر .... ایک محبت کو دوسری محبت میں کبھی گڈمڈ نہیں ہونے دیتی لیکن کبھی کبھی کمبخت یہ دل کا پلڑا کسی ایک طرف سے ایک دم سے جھک جاتا ہے اور وہ اس بارے میں خود سے نہ کوئی لڑائی کر پاتی ہے ، نہ ہی اپنی مخالفت...
(پلڑا....... سعدیہ عزیز آفریدی)

حضورصل اللہ علیہ وآلہ وسلم


اگر حضورصل اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتے
میرے حضور صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی جوانی کے سارے سال اور بڑھاپے کے چند برس حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے ساتھ بسر کئے تھے۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے عقد فرمایا تو رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم 25 سال کے تھے اور حضرت خدیجہ چالیس برس کی۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا انتقال 65 سال کی عمر میں ہوا۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے ساتھ 25 سال گزارے تھے۔ اس شادی نے دنیا میں دو نئے اصول متعارف کرائے تھے۔
ایک، جوان مرد اپنے سے زیادہ عمر کی خاتون کے ساتھ شادی کر سکتا ہے، آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عقد سے قبل عرب کم عمر خاتون سے عقد کرتے تھے لیکن آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ روایت توڑ دی۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ثابت کر دیا اچھی ازدواجی زندگی کے لئے عورت کا کم عمر ہونا ضروری نہیں ہوتا، اچھا ہونا ضروری ہوتا ہے۔
دو، حضرت خدیجہرضی اللہ تعالٰی عنہا آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محسن تھیں۔ آپ رضہ نے رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس وقت ساتھ دیا جب آپ ﷺ مکہ کے کمزور ترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روپیہ پیسہ تھا، جائیداد تھی اور نہ ہی کھانے پینے کا مناسب بندوبست۔حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مکہ کی متمول ترین خاتون تھیں، آپ رضہ بیوہ تھیں، تجارت کرتی تھیں اور آپ رضہ کسی مناسب، ایماندار اور اچھے انسان کی تلاش میں تھیں۔ آپ رضہ کو نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یہ ساری خوبیاں نظر آئیں۔ آپ رضہ نے رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ مانگ لیا۔ یہ اللہ کے نبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم پر احسان تھا، اور آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رب نے اس احسان کو ہمیشہ یاد رکھا۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا جب تک حیات رہیں رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسرا عقد نہیں فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اولاد بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے عنایت فرمائی۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے ساتھ تیس سال گزار کر ثابت فرما دیا اگر کوئی انسان دوسرے انسان پر احسان کرے تو انسان کو اپنے محسن کا احسان ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے، اس کا دل نہیں دُکھانا چاہئے۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا وصال کے بعد معلیٰ کے قبرستان میں دفن ہوئیں اور آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا روضہ مبارک اس پل کے بائیں ہاتھ تھا اور ہمیں اس وقت اس پل سے روضے کی خوشبو آرہی تھی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا روضہ پہاڑ کی گھاٹی میں ہے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے روضے سے معلیٰ کا قبرستان شروع ہوتا ہے اور دو سڑکوں دو پلوں سے نیچے ہوتا ہوا حرم شریف کے مشرق تک چلا جاتا ہے۔ قبرستان کے چاروں اطراف سات آٹھ فٹ اونچی دیوار ہے۔ آپ دیوار کے ساتھ چلتے ہوئے قبرستان کو صرف محسوس کر سکتے ہیں۔ دیکھ نہیں سکتے۔ حتیٰ کہ آپ "یو" کی شکل میں چلتے ہوئے اس پل پر پہنچ جاتے ہیں۔ جس پر آپ کو ایسا چالیس فٹ لمبا جنگلا مل جاتا ہے جہاں سے آپ قبرستان دیکھ سکتے ہیں۔
ہم اس وقت چالیس فٹ کے اس جنگلے کے پاس کھڑے تھے اور ہمارے سامنے صحابہ کرام رضہ کی آرام گاہیں تھیں۔ لیکن یہ جگہ محض صحابہ کرام رضہ کی آرام گاہ نہیں تھی۔ یہاں کچھ ایسی سسکیاں کچھ ایسی آہیں اور کچھ ایسی چیخیں بھی دفن تھیں۔ جن کی آواز سن کر شائد، شائد اور شائد اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری نبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نامہربان زمین پر اتارا تھا اور اس نبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان چیخوں، ان آہوں اور ان سسکیوں کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا۔
یہ جگہ بعثت سے قبل مکہ کی بچیوں کا زندہ قبرستان ہوتی تھی۔ مکہ کے کافر یہاں اپنی بچیوں کو زندہ درگور کرتے تھے۔ یہ لوگ معصوم بچیوں کو سامنے بٹھا کر قبر کھودتے تھے پھر اس بچی کے ہاتھ میں گڑیا دے کر، اسے مٹھائی کا ٹکڑا تھما کر، اسے نیلے پیلے سرخ رنگ کے کپڑے دے کر اس قبر میں بٹھا دیتے تھے۔بچی اسے کھیل سمجھتی تھی، وہ قبر میں کپڑوں، مٹھائی کے ٹکڑوں اور گڑیاؤں کے ساتھ کھیلنے لگتی تھی پھر یہ لوگ اچانک اس کھیلتی مسکراتی اور کھلکھلاتی بچی پر ریت اور مٹی ڈالنے لگتے تھے۔ بچی شروع شروع میں اسے بھی کھیل ہی سمجھتی تھی۔ لیکن جب ریت اس کی گردن تک پہنچ جاتی تو وہ گھبرا کر اپنے والد اپنی ماں کو آوازیں دینے لگتی تھی۔ لیکن ظالم والد مٹی ڈالنے کی رفتار میں اضافہ کر دیتا تھا۔ یہ لوگ اس قبیح عمل کے بعد واپس جاتے تھے تو ان معصوم بچیوں کی سسکیاں گھروں کے دروازے تک ان کا پیچھا کرتی تھیں۔ لیکن ان ظالموں کے دلوں پر تالے تھے ان کے دل نرم نہیں ہوتے تھے۔
بعض ایسے لوگ بھی تھے جن سے اسلام قبول کرنے سے پہلے ماضی میں ایسی غلطی ہوئی تھی۔ ایک نے واقعہ سنایا۔ میں اپنی بیٹی کو قبرستان لے کے جا رہا تھا۔ بچی نے میری انگلی پکڑ رکھی تھی۔ وہ باپ کے لمس کی وجہ سے خوش تھی۔ وہ سارا رستہ اپنی توتلی زبان میں مجھ سے باتیں کرتی رہی۔ وہ مجھ سے فرمائیشیں بھی کرتی رہی، اور میں سارا رستہ اسے اور اس کی فرمائشوں کو بہلاتا رہا۔ میں اسے لے کر قبرستان پہنچا۔
میں نے اس کے لئے قبر کی جگہ منتخب کی۔ میں نیچے زمین پر بیٹھا اور اپنے ہاتھوں سے ریت اٹھانے لگا۔ میری بیٹی نے مجھے کام کرتے دیکھا تو وہ بھی اپنے کام میں لگ گئی۔ وہ بھی اپنے ننھے ہاتھوں سے مٹی کھودنے لگی۔ ہم دونوں باپ بیٹی ریت کھودتے رہے۔ میں نے اس دن صاف کپڑے پہن رکھے تھے۔ ریت کھودنے کے دوران میرے کپڑوں پر مٹی لگ گئی۔ میری بیٹی نے کپڑوں پر مٹی دیکھی تو اس نے اپنے ہاتھ جھاڑے، اپنے ہاتھ اپنی قمیض کے ساتھ پونچھے اور میری قمیض سے ریت گھاڑنے لگی۔
قبر تیار ہوئی تو میں نے اسے قبر میں بٹھایا اور اس پر مٹی ڈالنا شروع کر دی۔ وہ بھی اپنے ننھے ہاتھوں سے اپنے اوپر مٹی ڈالنے لگی۔ وہ مٹی ڈالتی جاتی تھی اور قہقہہ لگاتی جاتی تھی اور مجھ سے فرمائیشیں کرتی جاتی تھی۔ لیکن میں دل ہی دل میں اپنے جھوٹے خداؤں سے دعا کر رہا تھا کہ تم میری بیٹی کی قربانی قبول کر لو اور مجھے اگلے سال بیٹا دے دو۔ میں دعا کرتا رہا اور بیٹی ریت میں دفن ہوتی رہی۔
میں نے آخر میں جب اس کے سر پر مٹی ڈالنا شروع کی تو اس نے خوفزدہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔ اور مجھ سے توتلے زبان میں پوچھا۔ " ابا آپ پر میری جان قربان، آپ مجھے ریت میں کیوں دفن کر رہے ہیں؟
میں نے اپنے دل کو پتھر بنا لیا اور دونوں ہاتھوں سے تیزی سے قبر پر ریت پھینکنے لگا۔ میری بیٹی روتی رہی چیختی رہی، دہائیاں دیتی رہی۔ لیکن میں نے اسے ریت میں زندہ دفن کردیا۔
یہ وہ نقطہ تھا جہاں رحمت العالمین صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ضبط جواب دے گیا۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئی اور آواز حلق مبارک میں گولا بن کر پھنسنے لگی۔ وہ شخص دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا اور رحمت العالمین صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہچکیاں لے رہے تھے۔
اس نے اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا ۔ " یا رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا میرا یہ گناہ بھی معاف ہوجائے گا؟" رحمت العالمین صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے اشکوں کی نہریں بہہ رہی تھیں۔
مجھے اس پل پر اس بچی اور اس جیسی سینکڑوں ہزاروں بچیوں کی آہیں سنائی دے رہی تھیں۔ اور میں کہہ رہا تھا کیا ہم پر رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اتنا احسان کافی نہیں، کیا یہ کافی نہیں آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اس گناہ سے بچا لیا۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف نہ لاتے تو ہم میں سے ناجانے کون کون اس گناہ میں شریک ہوتا۔ ہم میں سے کون کون اپنی بچیوں کا قاتل ہوتا۔ میرے رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہم پر یہ احسان ہی کافی ہے۔
جاوید چودھری، کالم " اگر حضورصل اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتے"




کچھ بھارت کیلئے اور غزوہ¿ ہند


کچھ بھارت کیلئے اور غزوہ¿ ہند
کالم نگار | ڈاکٹر محمد اجمل نیازی
========================
میرے پرسوں کے کالم میں میری کتاب سفر نامہ¿ ہند”مندر میں محراب“ کا نام غلط شائع ہو گیا ہے۔ اصل میں یہ بھارت کا سفرنامہ ہے۔ میں ایک ہی بار بھارت گیا تھا اور پھر اپنی کتاب کی وجہ سے نہ جا سکا کہ بھارت نے مجھ پر پابندی لگا دی۔ میری محبت بھارت کے سفر میں میرے اندر امڈتی رہی۔ لیکن میرے خیال میں بھارت کا سفر ایک بار کرنا چاہئے۔ میرے اندر پاکستان سے محبت کی فراوانیوں اور حیرانیوں کے کئی مزید چراغ جل اٹھے جو کبھی بجھ نہیں سکتے۔ کچھ لوگوں نے بھارت کا سفر ایک ادبی اور سیاسی وطیرہ بنا لیا ہے۔ ایک بار ادبی لوگوں کے سامنے ہندو مسلسل پاک بھارت سرحد کو لکیر کہہ کر اپنی خشونت کا اظہار کر رہے تھے۔ خیالوں خوابوں شعروں گیتوں اور ادب پاروں کی سرحد نہیں ہوتی۔ تو مرحوم ممتاز شاعر ضمیر جعفری نے ایک ہی جملے میں ان کی ہوا نکال دی۔ ادب کی سرحد نہیں ہوتی مگر ادیب کی سرحد تو ہوتی ہے۔ بھارت میں ادب لکھنے والے کو بھارتی ادیب کہا جائے گا تو پاکستان میں لکھنے والے کو پاکستانی ادیب ہی کہا جائے گا۔ کسی کا ادب عالمگیر اور ہمہ گیر ہو سکتا ہے مگر اس کا تعلق جس علاقے سے ہو گا اس کی معرفت سے اس کی پہچان بنے گی۔
علامہ اقبال پاکستان سے پہلے فوت ہو گئے مگر پاکستانیوں نے انہیں اپنا قومی شاعر بنا لیا ہے تو وہ پاکستانی شاعر ہیں۔ بلکہ نظریہ پاکستان دینے والے بھارت کی دوستی میں تڑپنے والے بھارت سے کہہ کر وہ تنازعے حل کرا دیں جن کے ذکر کے بغیر ہی ہم اس کی دوستی کے دھوکے میں مبتلا ہوئے جا رہے ہیں۔ ایک جنگ بھارت کے ساتھ ہو گی اور ہم بغیر لڑے ہی یہ جنگ جیت جائیں گے۔ محترم مجید نظامی نے صدر ضیا کی بھارت کیلئے دعوت پر کہا تھا کہ اگر تم ٹینک پر بیٹھ کر جا رہے ہو تو میں تمہارے ساتھ چلنے کو تیار ہوں۔ ٹینک سے بھارتی ایجنٹ بڑے پریشان ہوئے مگر وہ امریکی تھنک ٹینک پر غور نہیں کرتے۔ امریکی سوچ بچار کے حوالے سے بھی ٹینک ضروری سمجھتے ہیں۔ یہی سوچ بچار سے بے چارے مسلمانوں اور انسانوں کیلئے عذاب بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
میرے ایک بابا جی پچھلے دنوں اپنے عزیزوں سے ملاقات کیلئے بھارت گئے۔ بابا عرفان الحق عرفان و آگہی کے پیکر ہیں۔ بہت تخلیقی اور بامعنی گفتگو کرتے ہیں۔ ان کی گفتگو میں گمشدہ آرزو اپنا پتہ دیتی ہے۔ وہ اپنے عزیزوں کے شہر سہارنپور سے باہر نہ نکلے۔ یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ یہ مدرسوں کا شہر ہے۔ یہاں ایک ہزار سے زیادہ درس گاہیں ہیں۔ میں نے پوچھا بھارت میں مسلمانوں کی حالت کیسی ہے۔ انہوں نے برجستہ فرمایا کہ وہ پورے مسلمان ہوں گے تو ان کی حالت بھی اچھی ہو گی۔ مسلمان وہاں غریب ہیں۔ ہندو ان سے بھی زیادہ غریب ہیں۔ آبادی بہت ہے اور اسے صحیح طرح ہینڈل نہیں کیا گیا۔ چین میں بھارت سے زیادہ لوگ ہیں مگر وہاں انتظام ایسا کیا گیا ہے کہ کوئی خرابی نہیں ہوئی۔ بھارت میں ریلوے کا نظام اچھا ہے مگر ٹرینوں میں احتیاط کرنا پڑتی ہے کہ آپ کے پا¶ں کسی کے اوپر نہ پڑ جائے۔ گداگر اب پاکستان میں بھی بہت ہیں مگر بھارت میں بہت زیادہ ہیں۔ ہر جگہ لاشوں کی طرح لوگ پڑے ہوتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں سوال کے چراغ بھی بجھ گئے ہیں۔ بھارت میں گندگی بہت ہے۔ صفائی کا تصور ہی نہیں۔ وہاں لوڈشیڈنگ پاکستان سے کم نہیں۔
سہارنپور میں بابا جی نے محسوس کیا کہ وہ لوگ تبلیغ کے بہت شوقین ہیں۔ جبکہ ضرورت عمل کی ہے۔ رسول کریم کا کوئی خطاب دس پندرہ منٹ سے زیادہ کا نہیں۔ کوئی حدیث دس پندرہ سطروں سے زیادہ کی نہیں۔ ان کی زندگی جہد مسلسل کا آئینہ ہے۔ تبلیغ اگر کرنا بھی ہے تو وہ رسول کریم کے طریقے کے مطابق ہو اور رسول کریم تبلیغ کو اپنی عملی زندگی سے مربوط رکھتے تھے۔
بابا جی عرفان الحق نے ایک نارمل سے شہر سہارنپور کے نیشنل میڈیکل کالج میں امن کے موضع پر ایک لیکچر دیا۔ جسے بہت توجہ سے سنا گیا۔ بابا جی نے فرمایا جو چیز آپ اون نہیں کرتے جسے اپناتے نہیں۔ اپنے اندر امن کی کیفیت محسوس نہیں کرتے تو معاشرے کو کیسے دیں گے۔ اپنے ہمسائے کو کیسے دیں گے۔ اسے اپنی ذاتی زندگی سیاسی معاشرتی اور بین الاقوامی زندگی میں کیسے رائج کر سکتے ہیں۔ اس کیلئے تین چیزیں ضروری ہیں۔ یہ باتیں بابا جیسے اعلیٰ دل و دماغ والے حکمت بصیرت اچھائی اور بھلائی کے رازوں سے بھرے ہوئے آدمی کی زبان سے ادا ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ کسی سے موازنہ نہ کرو۔ تم خود اپنا نصیب نہیں لکھتے ہو ٹیلنٹ دینے والا کوئی اور ہے۔ کسی سے مقابلہ نہ کرو اور کسی کی شکایت نہ کرو۔ آدمی کے اندر سکون ہو گا تو وہ باہر بھی سکون پائے گا اور پھیلائے گا۔ رسول کریم حضرت محمد رحمت اللعالمین ہیں۔ ان کا خدا رب العالمین ہے۔ سارے زمانوں‘ سارے جہانوں‘ سارے انسانوں کا رب اور اس کا رسول رحمت ہی رحمت۔ سب کیلئے رحمت اس میں کوئی تخصیص نہیں تفریق نہیں۔ اس زمانے میں لوگوں کو ہلاک کرنے والے ہتھیاروں میں سے ایک بھی مسلمانوں نے ایجاد نہیں کیا۔ ہم نے ایٹم بم بنایا مگر ایجاد نہیں کیا۔ اپنے دفاع کیلئے بنایا۔ رسول عالم نے فرمایا اپنے گھوڑے تیار رکھو۔ ہمارے رسول نے بہت جنگیں لڑیں اور سب اپنے دفاع کیلئے لڑیں۔ صرف مکہ شہر پر چڑھائی کی کہ اس اپنے شہر سے انہیں ذلیل و خوار کر کے نکالا گیا مگر یہ جنگ بابا جی عرفان الحق کے بقول آپنے بغیر لڑے جیت لی۔ جس غزوہ¿ ہند کی طرف اشارہ کیا گیا ہے‘ وہ بھی بغیر لڑے جیت لی جائے گی۔ غزوہ وہ جنگ ہے جس میں آپ بنفس نفیس شرکت کرتے ہیں اور شرکت کی کئی قسمیں ہیں۔ یہ غزوہ¿ ہند ہے اور یہ غور طلب نقطہ ہے




منگل، 20 مئی، 2014

کوئی مرد رہا ہی نہیں؟

ہمارے اند حسن بے پیاں موضود ہے، ذرا آنکھ بند تو کرئیے، سب جھرنے، قوظ قزاح اور سمندر کا نیلا نلگوں پانی اور چٹانوں کا بھر بھرا پن، ندیوں کی خمدار اٹھکیلی کرتی چاندی دھاریں سب اندر ہیں---- تبھی تو من کی آنکھ کھلی ہو تو ربا جی کی یہ کائینات حسین نظر آتی ہے ورنہ حسد، کینہ ،بغض عناد ذدہ من صرف منفی توجیہات کے عوامل کریدتا ہے اور پھوڑے کو مزید کرید کرید کر ناسور روح بنا دیتا ہے-
گر یہ سرشت ربا جی کو نہ علم ہوتی تو وہ سب کائینات کو حسن بخچ کر صرف آنکھ بنا دیتا اور سب طرف  راوی چین کی بانسری بجا رہا ہوتا- مگر معملات اسکے مخالف ہیں اور اسی بات کا بار ہا ذکر ربا جی نے قرآن پاک میں کیا ہے کہ،اپنے باطن کی صفائی پر تو جہ دو- حتا فرمایہ کہ ،" صفا ئی نصف ایمان ہے" اور ہم محظ اسے جسمانی اور لباس کی صفائی لے بیٹھتے ہیں-
یہ جسم تو فنا کے درجے پر فائز ہے ، مٹی کو مٹی ہو جانا- تو پھر کاہے کو اتنا اس پر وقت کے ضیاع کا حکم لاگو کر ے کا " ترتیب و مزئین کر نے والی ہستی" ہم پر صفائی اور طہارت کو ہم پر-----
دراصل اندر پاک اور صاف تو نور کت لئیے در کھل گیا اور جب نور اند تو باطن پاک اور جب باطن کی قلعی منعکس ہوتی تو آدم کے ارد گرد حلقئہ نور واجب ہو جاتا ہے- رخ عطا ہو تا ہے- نور حضرت محمد (ﷺ)پاک خیر آمین کے حقدار بنتے اور پھر گر رحمت شامل حال تو راہبر عطا ہوتا ہے، مقصد عطا ہوتا ہے، اور پھر وہ فرد واحد ملت کے لئیے ایک روشن چراغ بن جاتا ہے-
تو خود سوچئیے ساتھئیو ؛ گر اک فرد اتنا فروزاں ہو سکتا کہ، " نور اسموات فلارض" کی شنوائی حاصل کر سکے تو ملت اسلمے ،امت حضرت محمد(ﷺ)پاک خیر کیلیئے جمئیت بندی کی صورت میں کیا کچھ کرم، رحمت،فضل کی پھواریں پوری امت کو جلو رحمت کا احاطہ کئیے ہوئے کیونکر نہ رکھے-
نہ ضنت کی ہوس نہ جہنم کی چنگھاڑ کا کوئی خوف نہ نفس پرستی اور نہ ہی عورت کے جسمانی خطوط کے اتار چڑھاؤ کو حسن کا پیمانہ سمجھ کر نی صرف خود کو احتسب کے لیے مفت میں کھڑا کر دیتے ہیں بلکہ عورت کی معصومیت کو بھی ثلط راہ کا امین بنا دیتے- یاد رکھیئے کوئی عورت ماں کے بطن سے حراطہ، طوائف، رنڈی یا جسم فروش نہیں پیدا ہوتی----اور بلفرض موجود بھی ہو تو ایک مرد جو عرب تا عجم ، یونان تا بلخ کی مسجدوں تک گھوڑوں کی ننگی پیٹھ پر مردوں کو مسخر کرتا ہے کیا اسکی نسل اتنی بودی کمزور ہو گئی کہ وہ ایک عورت کو راہ راست کو امیدوار نہیں بنا سکتا-
گر آپ معتبر مردوں کے پاس جواب "نفی" میں ہے تو باخدا حرم پاک کے مینارے اور مسجد اقضی کے کلس ایک بار پھر ہل جائیں کہ عجب نہیں ہم ایکبار پھر کفر اور جانور وں کے دور جہل میں جا رہے ہیں-
ہم مرد ہی عورت کو ہر منفی صورت کو پیرھن پہنا کر منصف کی  کرسی پر بیٹھ کر جہل کا فتوہ جاری کرتے ہیں- کیا ہم میں کوئی مرد رہا ہی نہیں؟ سوچیئے گا!!!
کیونکی ربا جی کی سندرتا کائینات پکار پکار کر کہتی ہے کہ ،" ہے کوئی جو ربا جی کی بنائی ہوئی اس حسن و دلکشی کی سندرتا کو کھوجے، سمجھے ،اپنائے وار بسا لے من میں- کون ہے جو ان دلکشیوں پر غور کرے، تحقیق کرے، کون ہے جو خود کو " سرنڈر" کر دے"----میں بھی سوچتا ہوں آپ بھی سوچئیے؛
ڈوب کے پا جا سراغ ذندگی۔۔۔گر تو کسی کا بھی نہ بن سکا تو کم از کم خود کی پہچان تو پا لے گا ناں-




جمعرات، 8 مئی، 2014

زرخھاف سے مانگے گا


میں نے اس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں
جیسے ماہتاب کو انت سمندر چاہے 
جیسے سورج کی کرن سیپ کے دل میں اترے 
جیسے خوشبو کا ہوا رنگ سے ہٹ کر چاہے 
جیسے پتھر کے کلیجے سے کرن پھوٹتی ہے 
جیسے غنچے کھلے موسم سے حنا مانگتے ہیں
جیسے خوابوں میں خیالوں کی کماں ٹوٹتی ہے 
جیسے بارش کی دعا آبلہ با مانگتے ہیں
میرا ہر خواب مرے سچ کی گواہی دے گا
وسعتِ دید نے تجھ سے تری خواہش کی ہے 
میری سوچوں میں کبھی دیکھ سراپا اپنا
میں نے دنیا سے الگ تیری پرستش کی ہے 
خواہشِ دید کا موسم کبھی ہلکا جو ہوا
نوچ ڈالی ہیں زمانوں کی نقابیں میں نے 
تیری پلکوں پہ اترتی ہوئی صبحوں کے لئے 
توڑ ڈالی ہیں ستاروں کی طنابیں میں نے 
میں نے چاہا کہ ترے حسن کی گلنار فضا
میری غزلوں کی قطاروں سے دہکتی جائے 
میں نے چاہا کہ مرے فن کے گلستاں کی بہار
تیری آنکھوں کے گلابوں سے مہکتی جائے 
طے تو یہ تھا کہ سجاتا رہے لفظوں کے کنول
میرے خاموش خیالوں مین تکلم تیرا
رقص کرتا رہے ، بھرتا رہے خوشبو کا خمار
میری خواہش کے جزیروں میں تبسم تیرا
تو مگر اجنبی ماحول کی پروردہ کرن
میری بجھتی ہوئی راتوں کو سحر کر نہ سکی
تیری سانسوں میں مسیحائی تھی لیکن تو بھی
چارۂ زخمِ غمِ دیدۂ تر کر نہ سکی
تجھ کو احساس ہی کب ہے کہ کسی درد کا داغ
آنکھ سے دل میں اتر جائے تو کیا ہوتا ہے 
تو کہ سیماب طبیعت ہے تجھے کیا معلوم 
موسمِ ہجر ٹھہر جائے تو کیا ہوتا ہے 
تو نے اس موڑ پہ توڑا ہے تعلق کہ جہاں
دیکھ سکتا نہیں کوئی بھی پلٹ کر جاناں
اب یہ عالم ہے کہ آنکھیں جو کھلیں گی اپنی
یاد آئے گا تری دید کا منظر جاناں
زرخھاف سے مانگے گا ترے عہدِ محبت کا حساب
تیرے ہجراں کا دہکتا ہوا محشر جاناں
یوں مرے دل کے برابر ترا غم آیا ہے 
!جیسے شیشے کے مقابل کوئی پتھر جاناں