زار کے صفحے

بدھ، 26 فروری، 2014

عشق کی گلی


رکو ! رکو تو، ارے ہاں یہ تمہی کو پکار رہا ہوں، رکو ،رکتےکیوں نہیں،چلو جی ؛اگر رکتے نہیں ہوتو ذرا سنتے ہی جاؤ ، یہ گلی جس میں تمہارے قدم پڑنے ہی والے ہیں یہ گلی عشق کی گلی کہلاتی ہے، یہاں ادب لازم ہے بابا-
سنو تو، ایک تو تم رک کر دو بول سن بھی لیا کرو سنا تم نے۔۔۔۔۔۔۔۔ہے میں یہ تمکو کہہ رہا ہوں ادب بہت لازم ہوتا یہاں، سنا ناں تم نے ،کہتے ہیں اس گلی کے پہلے پیامبر (علیہ السلام) جو عشق کا سندیسہ لاۓ تھے وہ اپنے پر بھی سمیٹ کر ادباٰ سرھانے حسن ماہ و فللق (ﷺ)پاک خیر کیلئے خاموش رہے اور جب ہمت نہ بن سکی تو بلآخر پاوں کے تلووں کو چوم لیا؛ یہ ہوتا ہے ادب، ایسا ہوتا ہے نامہ بر اور ایسا روا رکھا ہے عشق کی گلی والوں کا مقام عشاق نے -
کہتے ہیں گلی والوں نے مقام عشق کے زیر و زبر طے کر رکھے ہیں، سمجھے ناں تم، اب بھی تم ویسے ہی قدم دھرو گے وہاں؟ اس گلی میں ! اس بے ساختگی سے۔۔۔۔۔!!!!


2 تبصرے:

  1. کسی نے کہا تھا "احترام اور عزت ، محبت کے قرینوں کی پہلی شرط ہے اس کے بغیر عشق کی گلی میں قدم نہیں رکھا جا سکتا ".. سو اگر گلی میں قدم رکھ دیا ہے تو پورے یقین کے ساتھ سفر کرو کیوں کہ محبت میں بیک وقت توڑنے اور جوڑنے کی صلاحیت ھے ایسا نہ ہو کہ یقین بے یقینی میں بدل جائے اور سفر پورا نہ کر سکو تو ذات کے بکھرے ٹکڑے سمیٹنا مشکل ہو جاتا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. ماننے کی بات ہے ،سوچ سے مجھے شناسائی ےت آپکی محترمہ

    جواب دیںحذف کریں