زار کے صفحے

پیر، 24 فروری، 2014

کیا یہ ہی پیار کا وچار ہوتا ہے؟ کیا یہ ہی معجزات کا افکار ھونا ھوتا ہے

وہ دیونگی دیکھی اس میں جو سوچ کے صحیفوں میں کبھی سمجھے تھے- وہ اس الجھی سی لڑکی کے بے ترتیب حلئیے کو تکتا رہا- اسکی آواز میں شدت تھی، کپکپاتا وجود اور ناک پر ٹھیرا ٹھنڈاپسینہ گواہی دے رہا تھا کہ وہ سر تا پیر، عشق کے سرابوں میں اٹی پڑی ہے-
وہ دھیرے سے آگے بڑھتا آیا اور اسکے سامنے ھاتھ باندھے کھڑا ھو گیا کہ اسکی ذات کے سامنے ایک ڈھاج سا بن گیا ہو جیسے- وہ اسے بار بار جتلا رہی تھی کہ وہ ایک سر پھرا اور سطحی سوچ کا حامل انسان ھے جسکو باتیں بنانے کے علاوہ کچھ نہیں آتا، لفظوں کی قرطاس بکھیرنا اور لوگوں کی داد کا حصول اسکا مقصد ٹھیرا ہے۔
وہ اپنی گہری گرئے ھیزل آئیز کو اس پر جمائے تک رہا تھا- لبوں پر ہمیشہ کی طرح دھیمی مسکاں تھی- وہ اپنے سکارف کو سرد سپید انگلیوں سے درست کرتی اسکو بول رہی تھی کہ وہ حقیقی عشق کا فرقان کیا جانے، ایک داسی کی محبت کتنی گہری ھوتی اسکی \"ھو\" کیسے سمجھ سکتا، بھلا چمراغ کے سینے میں جو مشک عنبر جیسی مہک ابھرتی اسکا ما حاصل وہ کیا جانے۔۔۔۔۔کپکپاتے وجود کو خود میں مضبوط کرتی وہ بار بار باور کروا رہی تھی کہ اسکا عشق بہت پائیدار اور منفرد ہے، وہ عشق کے مراحل طے کرکے بڑی مشکل سے اپنے حقیقی عشق سے مدھبن مہہ الست پی چکی ہے ،اب اسے کسی کی ضرورت نہیں-----
مگر وہ جو گرجتا تھا، جسکی آواز کی گونج اسکے اپنے قبیلے کے لوگوں میں بھی گرمیئوں کے گرم موسموں میں بھی سرد لہر دڑوا دیتی تھیں آج اس چھوئی موئی سی ماہ و انج کے سامنے گمبیرتا لئیے ھوئی تھی- جب اس نے اسکی آنکھوں میں جھیل اترتی دیکھی تو وہ ایک بچے کی مانند تڑپ سا گیا جو ماں کی بلکتی لاش کو جیسے آذادی کے تحفے میں کسی پرچم کے بجائے بیچ چوراہے ٹانک دیا گیا ھو اور سب متائے عزیز وطن آتے جاتے اسکے لاشے کی آڑتی اتارتے ھوں- مگر وہ اسکا اپنی کوکھ کا جنا دیکھے تو تڑپ کر اس ترنگے کو ڈھانکنا چاہے-
ویسی ہی بےساختگی سے اس نے بھی اس کے سامنے اپنا وجود گھٹنوں کے بل لیرا دیا اور دھیمے سے اپنی دونوں بند مٹھیاں جو کب سے اسکے کرب کو سہتے سہتے بھنچ کر خود میں ہیچ ھو گئی تھیں اسکے سامنے کھلتی گئیں اور وہ فقط اتنا ہی کہہ پایا،\" رخ ماہ، میں جانتا ھوں تمہارے عشق کی مہ کے سامنے نہ میری اوقات ہے نہ میری ذات کی کوئی اہمیت مگر تم فقط اتنا کر لو کہ اپنے عشق نبیانہ(ص) کے صدقے اپنا سارا غضہ میری ان ھتیلیوں میں تھوک دو\"،اور اسی لحمے ماحول کے اس تغیر میں مواذن کی آواز گونجی ،\" حئی الفلاح حئی الفلاح\"-----------اور وہ دونوں، اسی لمحے کا سر 
بنکر بت سے ہو گئے----------کیا یہ ہی پیار کا وچار ہوتا ہے؟ کیا یہ ہی معجزات کا افکار ھونا ھوتا ھے



2 تبصرے:

  1. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. اور وہی تو ہے جو دلوں میں الفت ڈالتا ہے۔ ہم محبت کو سمجھنا چاہتے ہیں، اور محبت سمجھنے کی شے نہیں، محبت دل کا غیر مشروط سجدہ مانگتی ہے۔ اس دل کے سجدے میں سب آ گیا، پھر وہ سر کا زمیں پر جھکنا ہو، تیغ تلے جھکنا ہو یا سر کا کٹنا۔ محبت نے اپنے اوپر لازم کیا ہے کہ وہ وعدہ نبھاۓ گی، محبت ہمیشہ سچ ہوتی ہے، ہر جھوٹ کو فنا کر دینے والا ایک ازلی سچ۔ جہاں ہر بت کو توڑا جاتا یے یہ کہتے ہوۓ کہ حق آ گیا اور باطل فنا ہونے کے لئے ہی تھا، اب چاہے وہ بت انا کا ہو یہ شخصیت کے زعم کا خاصہ...
    حئی الفلاح حئی الفلاح

    جواب دیںحذف کریں