کبھی خود آگہی کسی کو وہ معراج عطا کرتی ہے،جسکی کھوج میں زمانہ گردشوں کے نشیب وفراز میں سرگرداں نظر آتا ہے تو کبھی اندر کی جوالا مکھی بنکر وہ تاتارئوں کو بھی ہیچ کر دے-
الغرض،ذات میںگر سیمابی کیفیت نہ ھو تو زمان و مکاں کے تار بجتے نہیں اور اندر کی “نے“کسی کی بنسری بن کر بجتی نہیں نہ ہی نالہ و فغاں بنکر کسی امید سحر کی نوید بنتی۔
قوموں کا عروج و زوال بھی کچھ اسی طرح کا ھوتا ھے۔جب وقت کا شہسوار دلیل و فکر کا چولا زیب تن کیے علم کی زرہ پہنے،ہاتوں میں عظم کی تلوار تھامے تنہا صحراے زیست میں جب نکلتا ھے تو کل کائنات گنگ ھو جاتی ھے۔ خالق کل بھی متوجہ ھو کر اپنی تخلیق کو محویت سے تکنے لگتا ہے۔
یہی وہ لمحے ھوتے ہیں کہ جب وقت کا سر رک جاتا ھے، ھر چیز حیرت کے سمندر میں معجزن ھو جاتی ھے۔ یہ وجدانی کیفیات فرد سے لیکر قوموں تک پر کم از کم ایک بار تو ضرور عطا ھوتی ہے۔ “کرم“ شامل حال ھو تو صاحب وقت کی عطائیت ساتھ نصیب ریے تو یہ مواقع بار بار رفیق رھتےمگر اس کے لیے “صاحب وقت“ اور وہ بھی مادر ذات ننگی تلوار کی مانند ،مظہر “کن فیکون“ جیسی ھستی کا نظر کر م ساتھ ہونا اول شرط ھے۔
تبھی انفرادی یا قوموں کے مقام “قلب“ پر “ھو“ کا نزول ھونا، “تو“ کے قالب میں ڈھلنا“، سمے کا ایک ایسا لمحہ بننا جو لاہوت لا مکاں سے بھی ماورا ھو۔ یہ سب تبھی ممکن جب “رخ“ عطا ھو۔ یہ رخ عطا ھونا بھی ایک نصیبہ ھے،یہ ھر ایک کے کاسہ میں نہیں ڈالا جاتا۔ یہ صرف اس مومن کا نصیبہ ھوتا جسکو ایک مادر ذات برھنہ شمشیر کی مانند ،اندھیروں میں نکلے تارے کی مانند پرھیزگار و متقی خاتون کا شیر عطا ھوا ہو۔ورنہ حرام خوراک کا ایک دانہ بھی جسکے شکم میں ھو وہ اس سفر کی گرد کا ایک ذرہ بھی نھیں پا سکتا چاھے اس میں صدیاں ہی کیں نی بیت جائیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں