بدھ، 9 جولائی، 2014

آپ تو جا کر ملی ہے عرش پروازوں میں روح


وصل کی حسرت نگاہوں سے مری کیا پا گئی
جو تری تصویر مجھ کو دیکھ کر شرما گئی

چہرهٔ پرنور کی اس کے جھلک دکھلا گئی
چاندنی ہم کو شبِ ہجراں میں کیا تڑپا گئی

قتلِ عاشق سے کجی ابرو میں اُس کی آ گئی
کیا نہ تھی یہ تیغ فولادی جو یوں بل کھا گئی

ہو گیا قطعِ تعلق سب سے وحشت میں مرا
بے خودی پاؤں کی میری بیڑیاں کٹوا گئی

جان آنکھوں سے نہ نکلی انتظارِ یار میں
موت بیٹھے بیٹھے بالیں پر مرے اکتا گئی

لگ گئے جیتے ہی جی ہم تو کنارے گور کے
ناتوانی تا سرِ منزل ہمیں پہنچا گئی

برگِ گل لے کر صبا تجھ کو یہاں آنا نہ تھا
تو اسیرانِ قفس کو اور بھی بھڑکا گئی

ابتدا ہی میں دکھائی عشق نے کیا انتہا
دل کے لگتے ہی جو منہ پر مردنی سی چھا گئی

جل نہ جائے سبزۂ تربت ہمارا کس طرح
جو گھٹا آئی وہ انگاروں کا مِنہ برسا گئی

تیشہ مارا سر پہ جب فرہاد نے نکلی صدا
جان کا کچھ غم نہیں محنت یہ سب بے جا گئی

آپ تو جا کر ملی ہے عرش پروازوں میں روح
اور مجھے رگ ہائے تن کے دام میں الجھا گئی

کون دریائے محبت سے اتر سکتا ہے پار
کشتیِ فرہاد آخر کوہ سے ٹکرا گئی

کیونکہ واشد کی توقع ہو دلِ پژمردہ کو
وہ کلی گل کی کہیں کھلتی ہے جو کمھلا گئی

شمع سے دیتا ہے نسبت تو جو روئے یار کو
کیا تری آنکھوں میں اے پروانہ چربی چھا گئی

عاشقِ کامل ہے زار تجھ سا ہرجائی نہیں
پھر نہیں پھرتی جدھر اُس کی طبیعت آ گئی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں