بدھ، 9 جولائی، 2014

فرض کیجیے


فرض کیجیے کہ آج رات آپ کو اپنی بیگم کے ساتھ کسی شادی میں جانا ہے۔ آپ دونوں بینک جاتے ہیں اور بیگم کے پہننے کے لیے ساری جیولری نکلوا کر گھر لے آتے ہیں۔ راستے بھر میں آپ کسی چور راہزن سے ڈرتے رہتے ہیں ۔ یہی حال شادی میں جاتے اور آتے وقت رہتا ہے مگر کچھ نہیں ہوتا۔ آپ دونوں اطمینان اور بے فکری سے سوجاتے ہیں ۔ صبح اٹھنے پر پتہ چلتا ہے کہ چور رات میں اور خاموشی سے آپ کے گھر سے سارا زیور چرا کر لے گئے ہیں۔ آپ تھانے کے چکر لگاتے ہیں ۔ پولیس کی منت کرتے ہیں کہ آپ کا کل سرمایہ لٹ چکا ہے، مگر بے سود۔
فرض کیجیے آپ ایک نوجوان بچے کے باپ ہیں جس سے آپ کو بڑ ی امیدیں وابستہ ہیں ۔ وہ روز کالج جاتا ہے۔ محنت سے پڑھتا ہے۔ آپ خوش اورمطمئن رہتے ہیں۔ ایک روز آپ کو پتہ چلتا ہے کہ کالج سے واپسی پر اسے ایک بس نے ٹکر ماردی۔ آپ کے پیروں تلے سے زمین نکل جاتی ہے۔ آپ دیوانہ وار دفتر سے ہسپتال بھاگتے ہیں ۔ پھٹی آنکھوں سے اپنی بیوی کو دیکھتے ہیں جو آپریشن تھیٹر کے باہر بیٹھی بلک بلک کر رورہی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر آپ کو آ کر بتاتا ہے کہ ہم کوشش کر رہے ہیں ۔ آپ ڈاکٹر کے سامنے ہاتھ جوڑ دیتے ہیں کہ میرے بچے کو بچالیجیے ۔
فرض کیجیے کہ چند دن سے آپ کی طبعیت کچھ خراب ہے ۔ مگر ایسی نہیں کہ چھٹی لے کر گھر بیٹھ جائیں ۔ مگر آپ مکمل نارمل بھی نہیں ۔آپ اپنے مسائل لے کر فیملی ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں ۔ وہ کچھ دوائیں دیتا ہے ۔ کچھ ٹیسٹ لکھتا ہے ۔ آپ دوا کھاتے ہیں ۔ فائدہ ہوجاتا ہے ۔ مگر احتیاطاً آپ ٹیسٹ بھی کرالیتے ہیں ۔ ٹیسٹ کی رپورٹ آنے پر آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو کینسر کا جان لیوا مرض لاحق ہے ۔آپ کے گھر میں کہرام مچ جاتا ہے ۔ پھر علاج شروع ہوتا ہے ۔ لاکھوں روپے برباد کر کے اور بے پناہ تکلیف اٹھا کر بھی آپ ہسپتال کے بستر پر پڑے موت کی آہٹ سننے پر مجبور ہیں۔آپ کے بچے تڑپ رہے ہیں ۔ بیوی کے چہرے پر تاریکی چھائی ہوئی ہے ۔ آپ کی دنیا بھی اندھیر ہو چکی ہے ۔
اطمینان رکھیے ۔ ہم صرف فرض کر رہے ہیں ۔ ابھی تک ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
آپ نے جیولری باحفاظت بینک لاکز میں رکھوادی۔ آپ کا بچہ روز پڑھنے جاتا ہے اور خیر سے آ جاتا ہے ۔ آپ کی طبیعت گرچہ ناساز ہوئی مگر معمولی سامسئلہ تھا جو دوا سے حل ہو گیا۔ اس دنیا میں اس جیسی ہزار چیزیں فرض کی جا سکتی ہے ۔ مگر ان میں سے کچھ بھی نہیں ہوتا ۔آپ کو کسی کی منت نہیں کرنی پڑتی۔ کسی کے آگے گڑگڑانا نہیں پڑتا۔آپ کی بیوی بلک بلک کر نہیں روتی۔ آپ کے بچے تڑپتے نہیں ۔ آپ کا مال محفوظ ہے ۔ عزت کو بٹہ نہیں لگا۔ جان عافیت میں ہے ۔
چلیے دو لمحے کے لیے ایک دفعہ پھر فرض کر لیجیے کہ یہ سب کچھ ہو چکا ہے ۔ آپ کا مال لٹ گیا ہے ۔ آپ کی جوان بیٹی کی آبرو پر حرف آ گیا ہے ۔ آپ کا بچہ آپریشن تھیٹرمیں ہے ۔ آپ خود ہسپتال میں پڑے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کا انتظار کر رہے ہیں ۔ کرب کے ان لمحوں کا تصور کیجیے ۔سوچیے کہ آپ کو کہاں کہاں بھاگنا اور کن کن لوگوں کے آگے گڑگڑانا پڑ رہا ہے ۔
اور پھر اس ہستی کا تصور کیجیے جو عافیت کا قلعہ بن کر آپ کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے ۔ وہ آپ سے کچھ نہیں مانگ رہا۔ مگر آپ اس کے قدموں پر احسان مندی کے جذبے سے گرجائیے کہ اس نے آپ کے مال کو بچالیا۔ وہ اپنے احسانوں پر اپنی تعریف نہیں سننا چاہتا۔ مگر آپ بہتے ہوئی آنکھوں اور لزرتے ہوتے ہونٹوں سے اس کی تعریف کیجیے کہ آپ کی اولاد محفوظ ہے۔
وہ آپ کے ہر گناہ کو دیکھ کر بھی انجان بن رہا ہے اور عافیت ، نعمت اور زندگی نہیں چھین رہا۔ آپ بھی عزم کر لیں کہ اب کبھی اس کو ناراض نہیں کریں گے ۔ ابھی وقت ہے ۔ جس نے دوسرے کے سامنے جھکنے نہیں دیا۔ اس کے سامنے جھک جائیں ۔ جس نے دوسروں کے سامنے تڑ پنے سے بچالیا اس کے سامنے رولیں ۔ جس نے دوسرے کا احسان اٹھانے سے بچالیا اس کی بندگی اختیار کر لیں


1 تبصرہ:

  1. بے شک زندگی تھکا دینے والی چیز ھے اور جب تم تھک جاؤ تو اپنے رب کا ذکر کیا کرو کیونکہ سکون تو صرف "الله" کے ذکر میں ھے

    جواب دیںحذف کریں