ماضی کو ویسے ہی پرے پھینکو جیسے انسان نہاتے ہوئے میل کچیل اتارتا ہے- سیانے کہتے ہیں کہ جو ماضی میں ڈوئی چلاتا رہتا ہے، اپنی خطاؤں کی لکیروں میں گم رہتا ہے تو ایسے شخص نے اپنی منزل کھوٹی کر دی ہوتی ہے ،اسے مالک پر بھوسہ نہیں ہوتا وہ شرک کا قصور وار ٹھیرتا ہے- دیکھو دوست، جو گزر گیا اسے خواب سمجھ کر بھول جاؤ جب جب ستائے تب تب رحمتوں کی طرف لؤ لگا لو- ایک آسان نسخہ بتاتا ہوں، جب جب دکھوں کا نفسانی جن سامنے آئے ،عصاب پر ہاوی ہونا چاہے،اسی لمحے اپنے سے نیچے والے کا ہاتھ تھام لو نیکی کی نیکی اور مدد کی مدد کسی کی-
ہر کوئی اپنے زمانے کو برا اور گزرے زمانے کی رام لیلا جبتا ہے۔سر دھنتا رہتا ہے، مگر اس سمےاچھت ریکھایئں کیا پرہوت کرتی رھیں اس سے ناواقف رہتا یے۔ صرف اس پر کیا موقف، ھم نے جو سوچ کی خوردبین خود پر ڈالی تو فقط زمین پر ماتھے کو رگڑتے پایا - جن باتوں کی وعدہ الست میں لبیک کہی وہی سوچ 1400 سال میں بھلا بیٹھے، جب ابتدائے آفرینش سے سب چیزیں مقررتھیں، تو پھر رنگولی کی پچکاریاں کیوں مار رہا ہے"وہ"، ،یہی سوچ کے ساتھ ادھر حاضر ہوں آخر اس صدی کی اہمیت اور ھمارا مقصد کیاہے؟
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں