زار کے صفحے

ہفتہ، 24 مئی، 2014

حضورصل اللہ علیہ وآلہ وسلم


اگر حضورصل اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتے
میرے حضور صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی جوانی کے سارے سال اور بڑھاپے کے چند برس حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے ساتھ بسر کئے تھے۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے عقد فرمایا تو رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم 25 سال کے تھے اور حضرت خدیجہ چالیس برس کی۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا انتقال 65 سال کی عمر میں ہوا۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے ساتھ 25 سال گزارے تھے۔ اس شادی نے دنیا میں دو نئے اصول متعارف کرائے تھے۔
ایک، جوان مرد اپنے سے زیادہ عمر کی خاتون کے ساتھ شادی کر سکتا ہے، آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عقد سے قبل عرب کم عمر خاتون سے عقد کرتے تھے لیکن آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ روایت توڑ دی۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ثابت کر دیا اچھی ازدواجی زندگی کے لئے عورت کا کم عمر ہونا ضروری نہیں ہوتا، اچھا ہونا ضروری ہوتا ہے۔
دو، حضرت خدیجہرضی اللہ تعالٰی عنہا آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محسن تھیں۔ آپ رضہ نے رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس وقت ساتھ دیا جب آپ ﷺ مکہ کے کمزور ترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روپیہ پیسہ تھا، جائیداد تھی اور نہ ہی کھانے پینے کا مناسب بندوبست۔حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مکہ کی متمول ترین خاتون تھیں، آپ رضہ بیوہ تھیں، تجارت کرتی تھیں اور آپ رضہ کسی مناسب، ایماندار اور اچھے انسان کی تلاش میں تھیں۔ آپ رضہ کو نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یہ ساری خوبیاں نظر آئیں۔ آپ رضہ نے رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ مانگ لیا۔ یہ اللہ کے نبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم پر احسان تھا، اور آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رب نے اس احسان کو ہمیشہ یاد رکھا۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا جب تک حیات رہیں رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسرا عقد نہیں فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اولاد بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے عنایت فرمائی۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے ساتھ تیس سال گزار کر ثابت فرما دیا اگر کوئی انسان دوسرے انسان پر احسان کرے تو انسان کو اپنے محسن کا احسان ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے، اس کا دل نہیں دُکھانا چاہئے۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا وصال کے بعد معلیٰ کے قبرستان میں دفن ہوئیں اور آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا روضہ مبارک اس پل کے بائیں ہاتھ تھا اور ہمیں اس وقت اس پل سے روضے کی خوشبو آرہی تھی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا روضہ پہاڑ کی گھاٹی میں ہے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے روضے سے معلیٰ کا قبرستان شروع ہوتا ہے اور دو سڑکوں دو پلوں سے نیچے ہوتا ہوا حرم شریف کے مشرق تک چلا جاتا ہے۔ قبرستان کے چاروں اطراف سات آٹھ فٹ اونچی دیوار ہے۔ آپ دیوار کے ساتھ چلتے ہوئے قبرستان کو صرف محسوس کر سکتے ہیں۔ دیکھ نہیں سکتے۔ حتیٰ کہ آپ "یو" کی شکل میں چلتے ہوئے اس پل پر پہنچ جاتے ہیں۔ جس پر آپ کو ایسا چالیس فٹ لمبا جنگلا مل جاتا ہے جہاں سے آپ قبرستان دیکھ سکتے ہیں۔
ہم اس وقت چالیس فٹ کے اس جنگلے کے پاس کھڑے تھے اور ہمارے سامنے صحابہ کرام رضہ کی آرام گاہیں تھیں۔ لیکن یہ جگہ محض صحابہ کرام رضہ کی آرام گاہ نہیں تھی۔ یہاں کچھ ایسی سسکیاں کچھ ایسی آہیں اور کچھ ایسی چیخیں بھی دفن تھیں۔ جن کی آواز سن کر شائد، شائد اور شائد اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری نبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نامہربان زمین پر اتارا تھا اور اس نبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان چیخوں، ان آہوں اور ان سسکیوں کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا۔
یہ جگہ بعثت سے قبل مکہ کی بچیوں کا زندہ قبرستان ہوتی تھی۔ مکہ کے کافر یہاں اپنی بچیوں کو زندہ درگور کرتے تھے۔ یہ لوگ معصوم بچیوں کو سامنے بٹھا کر قبر کھودتے تھے پھر اس بچی کے ہاتھ میں گڑیا دے کر، اسے مٹھائی کا ٹکڑا تھما کر، اسے نیلے پیلے سرخ رنگ کے کپڑے دے کر اس قبر میں بٹھا دیتے تھے۔بچی اسے کھیل سمجھتی تھی، وہ قبر میں کپڑوں، مٹھائی کے ٹکڑوں اور گڑیاؤں کے ساتھ کھیلنے لگتی تھی پھر یہ لوگ اچانک اس کھیلتی مسکراتی اور کھلکھلاتی بچی پر ریت اور مٹی ڈالنے لگتے تھے۔ بچی شروع شروع میں اسے بھی کھیل ہی سمجھتی تھی۔ لیکن جب ریت اس کی گردن تک پہنچ جاتی تو وہ گھبرا کر اپنے والد اپنی ماں کو آوازیں دینے لگتی تھی۔ لیکن ظالم والد مٹی ڈالنے کی رفتار میں اضافہ کر دیتا تھا۔ یہ لوگ اس قبیح عمل کے بعد واپس جاتے تھے تو ان معصوم بچیوں کی سسکیاں گھروں کے دروازے تک ان کا پیچھا کرتی تھیں۔ لیکن ان ظالموں کے دلوں پر تالے تھے ان کے دل نرم نہیں ہوتے تھے۔
بعض ایسے لوگ بھی تھے جن سے اسلام قبول کرنے سے پہلے ماضی میں ایسی غلطی ہوئی تھی۔ ایک نے واقعہ سنایا۔ میں اپنی بیٹی کو قبرستان لے کے جا رہا تھا۔ بچی نے میری انگلی پکڑ رکھی تھی۔ وہ باپ کے لمس کی وجہ سے خوش تھی۔ وہ سارا رستہ اپنی توتلی زبان میں مجھ سے باتیں کرتی رہی۔ وہ مجھ سے فرمائیشیں بھی کرتی رہی، اور میں سارا رستہ اسے اور اس کی فرمائشوں کو بہلاتا رہا۔ میں اسے لے کر قبرستان پہنچا۔
میں نے اس کے لئے قبر کی جگہ منتخب کی۔ میں نیچے زمین پر بیٹھا اور اپنے ہاتھوں سے ریت اٹھانے لگا۔ میری بیٹی نے مجھے کام کرتے دیکھا تو وہ بھی اپنے کام میں لگ گئی۔ وہ بھی اپنے ننھے ہاتھوں سے مٹی کھودنے لگی۔ ہم دونوں باپ بیٹی ریت کھودتے رہے۔ میں نے اس دن صاف کپڑے پہن رکھے تھے۔ ریت کھودنے کے دوران میرے کپڑوں پر مٹی لگ گئی۔ میری بیٹی نے کپڑوں پر مٹی دیکھی تو اس نے اپنے ہاتھ جھاڑے، اپنے ہاتھ اپنی قمیض کے ساتھ پونچھے اور میری قمیض سے ریت گھاڑنے لگی۔
قبر تیار ہوئی تو میں نے اسے قبر میں بٹھایا اور اس پر مٹی ڈالنا شروع کر دی۔ وہ بھی اپنے ننھے ہاتھوں سے اپنے اوپر مٹی ڈالنے لگی۔ وہ مٹی ڈالتی جاتی تھی اور قہقہہ لگاتی جاتی تھی اور مجھ سے فرمائیشیں کرتی جاتی تھی۔ لیکن میں دل ہی دل میں اپنے جھوٹے خداؤں سے دعا کر رہا تھا کہ تم میری بیٹی کی قربانی قبول کر لو اور مجھے اگلے سال بیٹا دے دو۔ میں دعا کرتا رہا اور بیٹی ریت میں دفن ہوتی رہی۔
میں نے آخر میں جب اس کے سر پر مٹی ڈالنا شروع کی تو اس نے خوفزدہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔ اور مجھ سے توتلے زبان میں پوچھا۔ " ابا آپ پر میری جان قربان، آپ مجھے ریت میں کیوں دفن کر رہے ہیں؟
میں نے اپنے دل کو پتھر بنا لیا اور دونوں ہاتھوں سے تیزی سے قبر پر ریت پھینکنے لگا۔ میری بیٹی روتی رہی چیختی رہی، دہائیاں دیتی رہی۔ لیکن میں نے اسے ریت میں زندہ دفن کردیا۔
یہ وہ نقطہ تھا جہاں رحمت العالمین صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ضبط جواب دے گیا۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئی اور آواز حلق مبارک میں گولا بن کر پھنسنے لگی۔ وہ شخص دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا اور رحمت العالمین صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہچکیاں لے رہے تھے۔
اس نے اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا ۔ " یا رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا میرا یہ گناہ بھی معاف ہوجائے گا؟" رحمت العالمین صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے اشکوں کی نہریں بہہ رہی تھیں۔
مجھے اس پل پر اس بچی اور اس جیسی سینکڑوں ہزاروں بچیوں کی آہیں سنائی دے رہی تھیں۔ اور میں کہہ رہا تھا کیا ہم پر رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اتنا احسان کافی نہیں، کیا یہ کافی نہیں آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اس گناہ سے بچا لیا۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف نہ لاتے تو ہم میں سے ناجانے کون کون اس گناہ میں شریک ہوتا۔ ہم میں سے کون کون اپنی بچیوں کا قاتل ہوتا۔ میرے رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہم پر یہ احسان ہی کافی ہے۔
جاوید چودھری، کالم " اگر حضورصل اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتے"




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں