زار کے صفحے

منگل، 20 مئی، 2014

کوئی مرد رہا ہی نہیں؟

ہمارے اند حسن بے پیاں موضود ہے، ذرا آنکھ بند تو کرئیے، سب جھرنے، قوظ قزاح اور سمندر کا نیلا نلگوں پانی اور چٹانوں کا بھر بھرا پن، ندیوں کی خمدار اٹھکیلی کرتی چاندی دھاریں سب اندر ہیں---- تبھی تو من کی آنکھ کھلی ہو تو ربا جی کی یہ کائینات حسین نظر آتی ہے ورنہ حسد، کینہ ،بغض عناد ذدہ من صرف منفی توجیہات کے عوامل کریدتا ہے اور پھوڑے کو مزید کرید کرید کر ناسور روح بنا دیتا ہے-
گر یہ سرشت ربا جی کو نہ علم ہوتی تو وہ سب کائینات کو حسن بخچ کر صرف آنکھ بنا دیتا اور سب طرف  راوی چین کی بانسری بجا رہا ہوتا- مگر معملات اسکے مخالف ہیں اور اسی بات کا بار ہا ذکر ربا جی نے قرآن پاک میں کیا ہے کہ،اپنے باطن کی صفائی پر تو جہ دو- حتا فرمایہ کہ ،" صفا ئی نصف ایمان ہے" اور ہم محظ اسے جسمانی اور لباس کی صفائی لے بیٹھتے ہیں-
یہ جسم تو فنا کے درجے پر فائز ہے ، مٹی کو مٹی ہو جانا- تو پھر کاہے کو اتنا اس پر وقت کے ضیاع کا حکم لاگو کر ے کا " ترتیب و مزئین کر نے والی ہستی" ہم پر صفائی اور طہارت کو ہم پر-----
دراصل اندر پاک اور صاف تو نور کت لئیے در کھل گیا اور جب نور اند تو باطن پاک اور جب باطن کی قلعی منعکس ہوتی تو آدم کے ارد گرد حلقئہ نور واجب ہو جاتا ہے- رخ عطا ہو تا ہے- نور حضرت محمد (ﷺ)پاک خیر آمین کے حقدار بنتے اور پھر گر رحمت شامل حال تو راہبر عطا ہوتا ہے، مقصد عطا ہوتا ہے، اور پھر وہ فرد واحد ملت کے لئیے ایک روشن چراغ بن جاتا ہے-
تو خود سوچئیے ساتھئیو ؛ گر اک فرد اتنا فروزاں ہو سکتا کہ، " نور اسموات فلارض" کی شنوائی حاصل کر سکے تو ملت اسلمے ،امت حضرت محمد(ﷺ)پاک خیر کیلیئے جمئیت بندی کی صورت میں کیا کچھ کرم، رحمت،فضل کی پھواریں پوری امت کو جلو رحمت کا احاطہ کئیے ہوئے کیونکر نہ رکھے-
نہ ضنت کی ہوس نہ جہنم کی چنگھاڑ کا کوئی خوف نہ نفس پرستی اور نہ ہی عورت کے جسمانی خطوط کے اتار چڑھاؤ کو حسن کا پیمانہ سمجھ کر نی صرف خود کو احتسب کے لیے مفت میں کھڑا کر دیتے ہیں بلکہ عورت کی معصومیت کو بھی ثلط راہ کا امین بنا دیتے- یاد رکھیئے کوئی عورت ماں کے بطن سے حراطہ، طوائف، رنڈی یا جسم فروش نہیں پیدا ہوتی----اور بلفرض موجود بھی ہو تو ایک مرد جو عرب تا عجم ، یونان تا بلخ کی مسجدوں تک گھوڑوں کی ننگی پیٹھ پر مردوں کو مسخر کرتا ہے کیا اسکی نسل اتنی بودی کمزور ہو گئی کہ وہ ایک عورت کو راہ راست کو امیدوار نہیں بنا سکتا-
گر آپ معتبر مردوں کے پاس جواب "نفی" میں ہے تو باخدا حرم پاک کے مینارے اور مسجد اقضی کے کلس ایک بار پھر ہل جائیں کہ عجب نہیں ہم ایکبار پھر کفر اور جانور وں کے دور جہل میں جا رہے ہیں-
ہم مرد ہی عورت کو ہر منفی صورت کو پیرھن پہنا کر منصف کی  کرسی پر بیٹھ کر جہل کا فتوہ جاری کرتے ہیں- کیا ہم میں کوئی مرد رہا ہی نہیں؟ سوچیئے گا!!!
کیونکی ربا جی کی سندرتا کائینات پکار پکار کر کہتی ہے کہ ،" ہے کوئی جو ربا جی کی بنائی ہوئی اس حسن و دلکشی کی سندرتا کو کھوجے، سمجھے ،اپنائے وار بسا لے من میں- کون ہے جو ان دلکشیوں پر غور کرے، تحقیق کرے، کون ہے جو خود کو " سرنڈر" کر دے"----میں بھی سوچتا ہوں آپ بھی سوچئیے؛
ڈوب کے پا جا سراغ ذندگی۔۔۔گر تو کسی کا بھی نہ بن سکا تو کم از کم خود کی پہچان تو پا لے گا ناں-




1 تبصرہ:

  1. ( اک عمدہ سوچ جو جستجو کے سفر کی بہترین نمائندگی کرتی ہے . )
    حیران ہوں کہ بہت روز سے ٹھہرا ہوا پانی
    تالاب میں اب کوئی طلب کا کنکر کیوں نہیں گرتا
    طلب کو صرف مرد ذات سے منسوب کرنے کی کوئی اہم وجہ ؟؟ ربّا جی نے کھوج اور جستجو کا مادہ ہر ذی نفس میں ودیعت کیا ہے اب چاہے وہ عورت ہو یا مرد جس میں طلب ہو گی وہ ضرور الله کی بنائی ہوئی اس حسن و دلکشی کی سندرتا کو کھوجے گا، سمجھے گا ،اپنائے گا اور بسا لے گا من میں- ان دلکشیوں پر غور کرے گا ، تحقیق کرے گا ، اور خود کو با راضی و رضا " سرنڈر" کر دے گا.

    جواب دیںحذف کریں