ہر کوئی اپنے زمانے کو برا اور گزرے زمانے کی رام لیلا جبتا ہے۔سر دھنتا رہتا ہے، مگر اس سمےاچھت ریکھایئں کیا پرہوت کرتی رھیں اس سے ناواقف رہتا یے۔ صرف اس پر کیا موقف، ھم نے جو سوچ کی خوردبین خود پر ڈالی تو فقط زمین پر ماتھے کو رگڑتے پایا - جن باتوں کی وعدہ الست میں لبیک کہی وہی سوچ 1400 سال میں بھلا بیٹھے، جب ابتدائے آفرینش سے سب چیزیں مقررتھیں، تو پھر رنگولی کی پچکاریاں کیوں مار رہا ہے"وہ"، ،یہی سوچ کے ساتھ ادھر حاضر ہوں آخر اس صدی کی اہمیت اور ھمارا مقصد کیاہے؟
زار کے صفحے
▼
منگل، 18 فروری، 2014
سب خاک تھا
سب خاک تھا اک "ع" تھی پھر "ش" تھا کچھ آگ تھی کچھ راکھ تھی اک دشت تھا اک بحر تھا صحرا بھی تھا اور پیاس تھی پھر اک خلا بے انت سا اک بند گلی سا راستہ ویرانیاں, تنہائیاں پھر "ق"تھا پھر سارا منظر راکھ تھا سب خاک تھا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں