ہر کوئی اپنے زمانے کو برا اور گزرے زمانے کی رام لیلا جبتا ہے۔سر دھنتا رہتا ہے، مگر اس سمےاچھت ریکھایئں کیا پرہوت کرتی رھیں اس سے ناواقف رہتا یے۔ صرف اس پر کیا موقف، ھم نے جو سوچ کی خوردبین خود پر ڈالی تو فقط زمین پر ماتھے کو رگڑتے پایا - جن باتوں کی وعدہ الست میں لبیک کہی وہی سوچ 1400 سال میں بھلا بیٹھے، جب ابتدائے آفرینش سے سب چیزیں مقررتھیں، تو پھر رنگولی کی پچکاریاں کیوں مار رہا ہے"وہ"، ،یہی سوچ کے ساتھ ادھر حاضر ہوں آخر اس صدی کی اہمیت اور ھمارا مقصد کیاہے؟
ہفتہ، 21 جون، 2014
بزرگوں کا دامن
بزرگوں کا دامن
بچپن میں شیخ سعدی اپنے والد کی انگلی پکڑے ہوئے کسی میلے میں جارہے تھے۔ راستے میں کسی جگہ بندر کا کھیل دیکھنے میں ایسے لگے کہ والد کی انگلی چھوٹ گئی۔ والد اپنے دوستوں کے ساتھ آگے نکل گئے اور سعدی تماشا دیکھتے رہے۔ کھیل ختم ہوا تو والد کو سامنے نہ پاکر بے اختیار رونے لگے۔ آخر اللہ اللہ کر کے والد بھی انھیں ڈھونڈتے ہوئے آنکلے۔ انھوں نے سعدی کو روتا دیکھ کر ان کے سر پر ہلکا سا چپت مارا اور کہا: "نادان بچے! وہ بے وقوف جو بزرگوں کا دامن چھوڑ دیتے ہیں، اسی طرح روتے ہیں۔"سعدی کہتے ہیں کہ میں نے سوچا تو دنیا کو ایسا ہی پایا، ایک میلے کی طرح۔ آدمی اس میلے میں مجھ جیسے نادان بچوں کی طرح ان بزرگوں کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے، جو اچھے اخلاق سکھاتے اور دین کی باتیں بتاتے ہیں، تب اچانک اسے دھیان آتا ہے کہ زندگی غفلت میں گزر گئی، پھر روتا اور پچھتاتا ہے۔
جہنم کے تصور سے رونا
جہنم کے تصور سے رونا
:فرمان الہی
ترجمہ : پس اُنہیں چاہیئے کے بہت کم ہنسیں اور بہت زیادہ روئیں ، ان اعمال کی وجہ سے جو وه کرتے تھے
:رسول اكرام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
لوگوں ! اپنے گناہوں پر خوب روؤ ، اگر تمہیں رونا نہ آئے تو رونے جیسا چہرہ ہی بنا لو . قیامت کے دن جہنمی اس قدر روئیں گے کے ان کے رخصاروں پر آنسوؤں کی نیحرین جاری ہو جائینگی - ابن ماجہ
تیری مٹی ذرا جدا ہے
اب میں باتیں کرتا ہوں، مگر خود سے، کیونکہ بہت دن ہو چلے تھے مجھے مجھ سے ملے ہوئے- اب خود کی باتیں سنتا ہوں اور خود کی تصحیح کرتا ہوں-مجھے خود کو بہت سنوارنا ہے، مجھے خود کو بہت نکھارناہے- جھوٹی دنیا کے بودے رشتے اب میرے پاؤں کے گفتار نہ بنیں گے، میں اب در در کسی رشتے کا امیدوار نہ بنوں گا
صدیوں کا مسافر ہوں، کیسے کسی کو اسیر کروں، اپنی محبتوں کی بیٹھک میں کیسے کسی کو مقید کروں-ہر ذرہ مجھ سے کہتا ہے ،تم نے افلاک کا سفر کرنا ہے،کسی طلسم حسینہ نامئہ بر کی زلفوں سے تجھے کیا غرض، تیرا لبادہ بوسیدہ ہی طے ہوا فلق پہ،تیرے حواس کی خو میں فقط بس آبیاری ہے، نہ منزل تیری یہاں ٹھیری نہ تھجے یہاں دوام ہے، فقط تو قاصد نامئہ بر کے حکم کا میراث ہے-
تربیت میری محل کے جھروکوں میں ایسی سنگلاخ رہی، نہ ممتا کی چھاؤں محسوس کی نہ بپتا کا سائیباں نصیب ہوا، جوانی کی دھلیز پر ایک نوشہ پری پر حجاب عطا ہوئی، پر پھر وہی افتاد جونمردی اور تائید حر مندی وہ بھی مجھ سے جدا کی، نہ رہی ممتا کی جھلملاتی نرم گود نہ پائی محبتوں کی نرگسی مسکاں-
حکم ہوا ،تھجے بنایا گیا ہے فقط بجا آوری کیلیئے، تیری مٹی ذرا جدا ہے، تجھے مانگ کا کوئی حق نہیں تیری شرست میں مں فقط "ھاں" ہے- تو مٹی کا فقط باسی ہے تجھے رہنا اب خاص ہے، اس پاسبان حرم ؤطن کی آنچ کے آنچل کی حرمت کے دھیرج کو تیری مٹی کو گوندھا گیا تھا وہاں، تو چاہ کہ بھی کسی طور سے نہ لے سکے کا مئہ نفس کا سرور،چل اٹھ کے تیرے نام کا طبل اب بج چکا، تجھے خود سے بڑھ کر کود سے بڑے ہیں کام کرنے بس اسی کو مقصد سمجھ تو لے بس اسی کو مربوط تو کر لے-
ہاں! یہ تیرا قلم نہیں ہے ،یہ بات تو تو کہیں اور طے ہے-------
خادم امت مسلمہ ،
میجر زرخھاف خان آفریدی
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)